ہے کہ یہ اسلام میں عورت کی ولایت کے بارے میں موقف اپنائیں جبکہ نبی کریم تو یہ فرما رہے ہوں کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پائے گی جس کی ذمہ داری ایک عورت کے ہاتھ میں ہو۔“ ٭ اشراق کے مقالہ نگار نے حنابلہ سے بھی ایک موقف منسوب کیا ہے جیسا کہ اُنہوں نے امیر صنعانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا نام لیا ہے۔ بعض حنابلہ کا موقف یہ ہے کہ کہ عورت نفلی نماز میں مردوں کے پیچھے کھڑی ہوکر امامت کراسکتی ہے۔لیکن امام ابن قدامہ نے … جو خود بھی حنبلی ہیں … دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہ موقف بلا دلیل، تحکم پر مبنی او رمضحکہ خیز ہے۔ پھر دورِ حاضر کے حنبلی علما کا موقف بھی اس سلسلے میں صریح طور پر سامنے آچکا ہے۔ فتاوٰى المرأة میں سعودی عرب کے سابق قاضی القضاۃ شیخ صالح بن حمید کا یہ فتویٰ موجود ہے : ”عورتوں کیلئے جائز نہیں کہ وہ مردوں کی امامت کرائیں ، کیونکہ نبی کریم کا فرمان ہے کہ اُنہیں پیچھے ہی رکھو جہاں اللہ نے انہیں پیچھے کیا ہے۔ پھر مسجد کی امامت ولایت(ذمہ داری) کی ایک قسم ہے اور ولایت مردوں کے لئے ہی درست ہے کیونکہ نبی کریم کا فرمان ہے کہ وہ قوم فلاح نہیں پائے گی جس کی ذمہ دار عورت بن جائے۔ البتہ حنابلہ کے ہاں اس حکم سے ایک مستثنیٰ قول بھی پایا جاتاہے کہ جب کوئی عورت مردوں سے زیادہ بہتر تلاوت کرنے پر قادر ہو تو عورت مردوں کے پیچھے سے ان کی امامت کرائے گی،لیکن یہ قول ضعیف ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ایسے ہی عورتیں مسجد میں عام امامت بھی نہیں کراسکتیں ۔“ (ص 319) ان تفصیلات سے پتہ چلتاہے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے مابین متفقہ حیثیت رکھتا ہے کہ عورت کی امامت مردوں کے لئے جائز نہیں ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خود حلقہ اشراق کے امام مولانا امین احسن اصلاحی کا موقف بھی اس کی مخالفت کرتا ہے، لیکن چونکہ مولانا کی پیروی کی بجائے اُنہیں صرف ان کے نام اور نسبت سے سروکار ہے، اس لئے انہیں ان کے موقف سے کوئی دلچسپی نہیں ۔مولانا اصلاحی نے ماہنامہ میثاق کے شمارہ نومبر 1964ء میں ’عورت کی امامت‘ کے عنوان پرمعرکہ آرا بحث لکھی ہے۔ یہاں ان کے دو دیگر اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں : ”اسلامی شریعت کی رو سے عورت نماز میں مردوں کی امام نہیں ہوسکتی او راگر کسی مرد کی اقتدا میں وہ نماز ادا کرے تو اس کے لئے بھی بعض شرطوں ہیں جن کا اہتمام ضروری ہے۔اس حکم کی وجہ عورت کی کمتری یا مرد کی فضیلت نہیں ہے بلکہ یہ سر تاسر اسلام کے اخلاقی اصولوں پر مبنی |