تحقیق حدیث مولانا حافظ زبیر علی زئی مدیر مجلہ ’الحدیث‘ حضرو نماز میں عورت کی امامت؟ اس مسئلے میں علما کرام کا اختلاف ہے کہ کیا عورت نماز میں عورتوں کی امام بن سکتی ہے یا نہیں ؟ ایک گروہ اس کے جواز کا قائل ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ وكان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها وأمرها أن تؤم أهل دارها(سنن ابو داود، کتاب الصلوٰۃ،باب إمامة النسائح 592 وعنه البيهقي في الخلافيات قلمی ص4ب) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن )امّ ورقہ رضی اللہ عنہا ( کی ملاقات کے لئے اُن کے گھر جاتے، آپ نے اُن کے لئے اذان دینے کے لئے ایک موٴذن مقرر کیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا ) کو حکم دیا تھا کہ اپنے گھر (یا قبیلے، محلے) والیوں کو (فرض) نماز پڑھائیں ۔ “ ٭ اس حدیث کا بنیادی راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع ’صدوق، حسن الحدیث‘ ہے (تحرير تقریب التہذیب:7432) یہ صحیح مسلم وغیرہ کا راوی اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے لہٰذا اس پر جرح مردود ہے۔ ٭ ولید کا اُستاد عبدالرحمن بن خلاد ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ، ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن الجارود رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ثقہ وصحیح الحدیث ہے، لہٰذا اس پر حالہ مجہول والی جرح مردود ہے۔ ٭ لیلیٰ بنت مالک (ولید بن جمیع کی والدہ)کی توثیق ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اس کی حدیث کی تصحیح کرکے کردی ہے لہٰذا اس کی حدیث بھی حسن کے درجہ سے نہیں گرتی۔ نیز ابن خزیمہ (1676) اور ابن الجارود (المُنتقىٰ:333) نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ حدیث کا مفہوم اس حدیث کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے لئے دو اہم باتیں مدنظر رکھیں : |