Maktaba Wahhabi

46 - 86
اوّل: ایک حدیث کی شرح دیگر احادیث سے ہوتی ہے ، اس کے لئے حدیث کی تمام سندوں اور متون کو جمع کرکے مفہوم سمجھا جاتا ہے۔ دوم: سلف صالحین (محدثین کرام، راویانِ حدیث) نے حدیث کی جو تفسیراور مفہوم بیان کیا ہوتا ہے، اسے ہمیشہ مدنظر رکھا جاتا ہے، بشرطیکہ سلف کے مابین اس مفہوم پر اختلاف نہ ہو۔ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پر امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 311ھ) نے درج ذیل باب باندھا ہے: باب إمامة المرأة النساء في الفريضة“ (صحیح ابن خزیمہ 3/89 ح1676) امام ابوبکر بن منذر نیسا بوری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 318ھ) فرماتے ہیں : ذكر إمامة المرأة النساء في الصلوات المكتوبة“ (الاوسط فی السنن والاجماع والاختلاف: 4/226) ان دونوں محدثین کرام کی تبویب سے معلوم ہوا کہ اس حدیث میں أھل دارھاسے مراد عورتیں ہیں ، مرد نہیں ۔ محدثین کرام میں اس تبویب پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ٭ امام ابوالحسن دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 385ھ) فرماتے ہیں : حدثنا أحمد بن العباس البغوي: ثنا عمر بن شبه: (ثنا) أبو أحمد الزبيري: نا الوليد بن جميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أذن لها أن يؤذن لها و يقام وتؤم نساء ها (سنن الدارقطني:1/279 ح1071 وسنده حسن،وعنہ ابن الجوزي في ال تحقیق مع التنقيح: 1/253 ح 424 وضعفہ،دوسرا نسخہ: 1/313 ح387،اتحاف المہرة لابن حجر: 18/323) ”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو اس کی اجازت دی تھی کہ اُن کے لئے اذان اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنے(گھر، محلے کی) عورتوں کی (نماز میں ) امامت کرائیں ۔“ ٭ اس روایت کی سند حسن ہے اور اس پر ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح غلط ہے۔ ابو احمد محمد بن عبداللہ بن الزبیر زبیری صحاحِ ستہ کا راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہے، لہٰذا صحیح الحدیث ہے۔ امام یحییٰ بن معین نے کہا :ثقۃ، ابوزرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: صدوق،ابوحاتم رازی نے کہا: حافظ للحديث عابد مجتهد له أوهام (الجرح والتعدیل: 7/297) ٭ عمر بن شبہ:صدو ق لہ تصانيف (تقریب التہذیب:4918 )بلکہ ثقہ ہے (تحریر
Flag Counter