تقریب التہذیب: 3/75) ، حافظ ذہبی نے کہا: ثقہ ہے(الکاشف: 2/272) ٭ احمد بن العباس بغوی: ثقہ ہے ۔ (تاریخ بغداد: 4/329 ت 2144) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ سند حسن لذاتہ ہے۔ اس صحیح روایت نے اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیا کہ”أهل دارها“ سے مراد امّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر اور محلے قبیلے کی عورتیں ہیں ، مرد مراد نہیں ہیں ۔ کیا یہ الفاظ امام دار قطنی کے ہیں ؟ یہاں یہ بات حیرت انگیز ہے کہ اشراق کے مقالہ نگار پروفیسر خورشیدعالم لکھتے ہیں : ”یہ دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں ، حدیث کے الفاظ نہیں ، یہ ان کی اپنی رائے ہے۔ سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی کتاب میں یہ اضافہ نہیں ، اس لئے اس اضافے کو بطورِ دلیل پیش نہیں کیا جاسکتا۔“ (اشراق: مئی 2005ء ص38،39) حالانکہ آپ نے ابھی پڑھ لیا ہے کہ یہ حدیث کے الفاظ ہیں ، دارقطنی کے اپنے الفاظ نہیں ہیں بلکہ راویوں کی بیان کردہ روایت کے الفاظ ہیں ۔ اُنہیں امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی ’اپنی رائے‘ کہنا غلط ہے۔ جن لوگوں کو روایت اور رائے میں فرق معلوم نہیں ہے وہ کس لئے مضامین لکھ کر اُمت ِمسلمہ میں اختلاف و انتشار پھیلانا چاہتے ہیں ؟ رہا یہ مسئلہ کہ یہ الفاظ سنن دارقطنی کے علاوہ حدیث کی کسی دوسری کتاب میں نہیں ہیں تو عرض ہے کہ امام دارقطنی ثقہ و قابل اعتماد امام ہیں ۔ شیخ الاسلام ابوطیب طاہر بن عبداللہ طبری (متوفی 450ھ) نے کہا: كان الدارقطني أميرالمؤمنين في الحديث (تاریخ بغداد: 12/36ت 6404) خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی463ھ) نے کہا: وكان فريد عصره و قريع دهره و نسيج وحده و إمام وقته، انتهٰى إليه علم الأثر والمعرفة بعلل الحديث وأسماء الرجال وأحوال الرواة مع الصدق والأمانة والفقه والعدالة (وفي تاريخ دمشق عن الخطيب قال: والثقة والعدالة:46/67) وقبول الشهادة وصحة الاعتقاد وسلامة |