المذهب (تاریخ بغداد: 12/34 ت 6404 ) ”وھ نابغہ روزگار اور اپنے وقت کا امام تھا۔علم حدیث اور علل حدیث،اسماء الرجال اور راویوں کے حالات کی پہچان اس پر ختم تھی اور اسکے ساتھ ساتھ وہ صدق وامانت،فقہ ، ثقاہت وعدالت میں بھی باکمال تھا۔نیز وہ صحیح العقیدہ اور صحیح المذہب اور گواہی میں معتبر آدمی تھا۔“ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:الإمام الحافظ المجود،شيخ الاسلام علم الجهابذة (سيرأعلام النبلاء: 16/449) اس جلیل القدر امام پر متاخر حنفی فقیہ محمود بن احمد عینی (متوفی 855ھ) کی جرح مردود ہے، حتی کہ عبدالحئ لکھنوی حنفی اس عینی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ولولم يكن فيه رائحة التعصب المذهبي لكان أجود وأجود (الفوائد البهية:ص 208) ”اگر اس میں مذہبی (یعنی حنفی) تعصب کی بو نہ ہوتی تو بہت ہی اچھا ہوتا۔“ نوٹ: امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ تدلیس کے الزام سے بھی بری ہیں ، دیکھئے:میری کتاب الفتح المبين في تحقیق طبقات المدلسين (19/1) جب حدیث نے بذاتِ خود حدیث کا مفہوم متعین کردیا ہے اور محدثین کرام بھی اس حدیث سے عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی سمجھ رہے ہیں تو پھر لغت اور الفاظ کے ہیرپھیر کی مدد سے عورتوں کو مردوں کا امام بنا دینا کس عدالت کا انصاف ہے؟ ابن قدامہ لکھتے ہیں :وهذا زيادة يجب قبولهااور اس (نساء ها) کے اضافہ کو قبول کرنا واجب ہے۔ (المغنی: 2/16م 1140) یہاں یہ بھی یاد رہے کہ آثارِ سلف صالحین سے صرف عورت کا عورتوں کی امامت کرانا ہی ثابت ہوتا ہے۔ عورت کا مردوں کی امامت کرانا یہ کسی اثر سے ثابت نہیں ہے۔ چنانچہ ريطہ الحنفية (قال العجلي: كوفية تابعية ثقة) سے روایت ہے کہ أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلوٰة المكتوبة(سنن الدارقطني: 1/404ح1492 وسنده حسن،وقال النيموي في آثار السنن:514 وإسناده صحيح وانظر:كتابي أنوار السنن في تحقیق آثار السنن ق 103) |