Maktaba Wahhabi

67 - 86
فقہ واجتہاد محمد رضی الاسلام ندوی٭ امامت ِ نسواں کا جواز؟ حدیث ِ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی روشنی میں گذشتہ دنوں امریکہ میں ایک مسلم خاتون نے جرأتِ رندانہ سے کام لے کر مردوں اور عورتوں کی ایک مخلوط جماعت کی امامت کیا کی کہ پوری دنیا میں اس کی مخالفت اور حمایت کا بازار گرم ہوگیا۔ علمااور فقہا نے اس کے خلاف فتوے دیے اور اسے ناجائز عمل بتایا تو روشن خیال مسلم دانشوروں نے اس کی حمایت کی اور اسے ایک انقلابی اقدام قرار دیا۔ عورت کے ذریعے مخلوط جماعت کی امامت کے عدمِ جواز پر علما نے جو دلائل دیے ہیں ان میں وہ احادیث بھی ہیں جن میں مسجد میں عورتوں کی صفوں کو سب سے آخر میں اوربچوں کی صفوں کے بعد رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد عورتوں اور مردوں کے اختلاط کو روکنا ہے۔ ان کے علاوہ ان کی ایک دلیل ’اُمت کا ہمیشہ سے چلا آنے والا ’تعامل‘ بھی ہے۔ اُمت کی چودہ سو سالہ تاریخ میں یہ روایت کبھی نہیں رہی۔ عہد ِنبوی اور عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی خواتین کو یہ ’اعزاز‘ نہیں بخشا گیا۔ متعدد امہات المومنین، مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ اور متعدد صحابیات رضی اللہ عنہن قرآن کریم کے حفظ، قراء ت اور فہم میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر تھیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ عرصہ تک زندہ رہیں ، مگر کبھی اُنہیں امامت کے لئے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ ایک موقع پر اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جنگ میں ایک لشکر کی قیادت کی، مگر اس دوران بھی انہو ں نے کبھی مردوں کی جماعت کی امامت نہیں کی۔ اسی بنا پر جمہور فقہاے امت نے عورت کی امامت کو ناجائز قرار دیا ہے۔ جدید روشن خیال مسلم دانشور مسلمان عورت کو ہر میدان میں مردوں کے دوش بدوش دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کے نزدیک وہ تمام حقوق و اختیارات جو مردوں کو حاصل ہیں ، ان سے اسلام ٭ مدیر معاون سہ ماہی ’ تحقیقات اسلامی ‘ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی ، علی گڑھ ، انڈیا
Flag Counter