Maktaba Wahhabi

33 - 86
تحقیق و تنقید مولانا ارشاد الحق اثری کیا عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے؟ مکرمی و محترمی جناب مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی صاحب السلام عليكم ورحمة اللہ و بركاتہ ’اشراق‘ کے شمارہ مئی 2005ء میں ’عورت کی امامت‘ کے متعلق چھپنے والے مضمون کی فوٹو کاپی ارسال کرنے پر شکرگزار ہوں ۔ آپ نے درست فرمایا ہے کہ غامدی صاحب اور اربابِ اشراق اسلام کا نیا ماڈل متعارف کرانے میں مصروف ہیں اور شاذ اقوال کی بنیاد پر نت نئے فتنوں کو پروان چڑھانے میں سرگرم ہیں ۔ ’عورت کی امامت‘ کا مسئلہ نیا نہیں ، پرانا ہے۔ اور علماے حق اس بارے میں بحمداللہ ایک عرصہ ہوا احقاقِ حق کا فریضہ ادا کرچکے ہیں ۔ جزاهم الله أحسن الجزاء اس بحث میں اشراق نے جو رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے، اس بارے میں چند وضاحتیں پیش خدمت ہیں جس سے ان حضرات کے دجل و فریب کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ’اشراق‘ کی غلط بیانیاں پہلا دجل:حضرت امّ ورقہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کی صحت و ضعف کے حوالے سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ ”حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ عسقلانی التلخيص الحبيرمیں فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ایک راوی ولید بن عبداللہ بن جمیع مجہول الحال ہیں مگر ابن حبان نے ان کو ثقہ شمار کیا ہے۔“ (’اشراق‘ بابت مئی 2005ء :ص39) حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے التلخیص میں قطعاً ولید بن عبداللہ کو مجہول الحال نہیں کہا۔ ان کے الفاظ ہیں : وفي اسناده عبد الرحمن بن خلاد وفيه جهالة“ (التلخیص:ج2/ص27)
Flag Counter