سے مسلمان عورت کو جن ابتلاوٴں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، ان کا کوئی حل ان میں ہو؟ یا ان سے ان کا معاشرتی رتبہ بلند ہوسکتا ہو؟ ان میں سے کوئی ایک بات بھی ان میں نہیں ہے۔ ان دفعات میں سارا زور اس امر پر دیا گیا ہے کہ مسلمان عورت بھی مغرب کی حیا باختہ عورت کی طرح آزاد ہو، وہ خود ہی تجربے کرکے اپنے شریک ِحیات کا انتخاب کرے، اور اس کے بعد بھی اس کا شریک ِحیات (پارٹنر) اس کے ماتحت رہ کر اپنا وقت گزارے۔ حتیٰ کہ وہ بدکاری کا ارتکاب بھی کرلے، تو اسے مستوجب ِسزا نہ ٹھہرا یا جائے کیونکہ پاکدامنی کا تصور اب فرسودہ ہوگیا ہے اور یہ روشن خیالی کا دور ہے جس میں دیدارِ یار ہی کا اِذنِ عام نہیں ، بلکہ شادی سے بھی پہلے سب کچھ کرنے کا حق ہے۔ اسی طرح عورت کو یہ حق بھی حاصل ہو کہ وہ اپنی مرضی سے جتنے چاہے بچے پیداکرے، بچوں کی پیدائش کے بجائے اس کی صحت زیادہ عزیز ہونی چاہئے۔ علاوہ ازیں اسے یہ حق بھی ہو کہ وہ خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہ دے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مغرب کے ان تصورات کو، جو اسلامی تعلیمات کے یکسر خلاف، بے حیائی اور بدکاری کی کھلی چھوٹ کے مترادف اور مسلمان عورت کی عزت و وقار کے منافی ہیں ، انہیں ’اسلامی حقوق‘ باور کرایا جارہا ہے، فإنالله وإنا إليه راجعون خرد کا نام جنوں رکھ دیا اور جنوں کا خرد جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے! نام نہاد مسلمانوں کی وہ نسل نو، جو مغربی ماحول کی پروردہ، انہی کے تعلیمی اداروں کی پرداختہ اور انگریزوں ہی کی بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ ہے، ان میں سے بعض مردوزن کا اس فتراک کا نخچیر بن جانا، اس دامِ ہم رنگ زمین کا شکار ہوجانا اور استعمار کی اس سازش میں پھنس جانا، زیادہ ناقابل فہم نہیں ہے کہ وہ تو اسلام اور اس کی تعلیمات سے یکسر ناآشنا ہیں ۔ لیکن ان مذہبی خرقہ پوشوں کو کیا کہئے جو تمام فقہاے اُمت سے زیادہ اپنے آپ کو ’فقیہ‘، تمام مفسرین اُمت سے زیادہ اپنے آپ کو ’مفسر‘ اور تمام علماے اُمت سے زیادہ اپنے آپ کو ’عالم‘ اور تمام محققین اُمت سے زیادہ اپنے آپ کو ’محقق‘ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اس گروہ ناہنجار کی حمایت میں آستین چڑھا کر میدان میں نکل آئے ہیں ۔ اس گروہ کے اس رویے ہی سے بہ آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی اس ’تحقیق‘ کے پس پشت کیا مفادات کافرما ہیں اور ان کی یہ ’فقاہت‘ ان کے کس ذہن کی غماز ہے؟ ع ہم اگر عرض کریں تو شکایت ہوگی!! |