Maktaba Wahhabi

49 - 86
”ہمیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرض نماز پڑھائی تو آپ عورتوں کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔“ مشہور تابعی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تؤم المرأة النساء في صلوٰة رمضان تقوم معهن في صفهن (مصنف ابن ابى شيبہ: 2/89 ح4955 وسندہ صحيح،عنعنة هيثم عن حصين محمولة على السماع،انظر شرح علل الترمذي لابن رجب: 2/562 والفتح المبين في تحقیق طبقات المدلسين لراقم الحروف: 3/111) ”عورت عورتوں کو رمضان کی نماز پڑھائے تو وہ ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوجائے۔“ ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: تؤم المرأة النساء من غير أن تخرج أمامهن ولكن تحاذي بهن في المكتوبة والتطوع“ (مصنف عبدالرزاق: 3/140 ح 5080 و سندہ صحیح) ”عورت جب عورتوں کی امامت کرائے گی تو وہ آگے کھڑی نہیں ہوگی بلکہ ان کے برابر (صف میں ہی) کھڑی ہوکر فرض و نفل پڑھائے گی ۔“ معمر بن راشد نے کہا: تؤم المرأة النساء في رمضان وتقوم معهن في الصف (مصنف عبدالرزاق: 3/140 ح5085 و سندہ صحیح) ”عورت عورتوں کو رمضان میں نماز پڑھائے اور وہ اُن کے ساتھ صف میں کھڑی ہو۔ “ معلوم ہوا کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے کہ عورت جب عورتوں کو نماز پڑھائے گی تو صف سے آگے نہیں بلکہ صف میں ہی ان کے ساتھ برابر کھڑی ہوکر نماز پڑھائے گی۔ مجھے ایسا ایک حوالہ بھی باسند صحیح نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو کہ سلف صالحین کے سنہری دور میں کسی عورت نے مردوں کو نماز پڑھائی ہو یا کوئی مستند عالم اس کے جواز کا قائل ہو۔ ابن رشد (م 515ھ) وغیرہ بعض متاخرین نے بغیر کسی سند و ثبوت کے یہ لکھا ہے کہ ابوثور (ابراہیم بن خالد،متوفی 240ھ) اور (محمد بن جریر) طبری، متوفی 310ھ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت مردوں کو نماز پڑھا سکتی ہے۔ (دیکھئے بداية المجتھد:ج1/ ص145، المغنی فی فقہ الامام احمد: 2/15 مسئلہ:1140) چونکہ یہ حوالے بے سند ہیں ، لہٰذا غیر معتبر ہیں ۔ نتیجہ تحقیق : عورت کا نماز میں عورتوں کی امامت کرانا جائز ہے مگر وہ مردوں کی امام نہیں بن سکتی۔ وما علينا الاالبلاغ
Flag Counter