ذلك عن الصدر الاول“ (بداية المُجتہد : ج1/ ص105) ”جمہور علما کا اتفاق کہ عورت مردوں کی امامت نہیں کرسکتی، اس لئے ہے کہ اگر ایسا جائز ہوتا تو صدر اوّل میں اس کی کوئی روایت ہوتی۔“ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور امّ الموٴمنین حضرت امّ سلمہ قراء صحابہ و صحابیات میں شمار ہونے کے باوصف مردوں کو نہیں ، صحابیات اور دیگر مستورات کو ہی نماز پڑھاتی تھیں ۔ بالکل یہی نوعیت تابعین کرام رحمۃ اللہ علیہ کے طرزِ عمل اور فتویٰ سے معلوم ہوتی ہے۔ بلا دلیل و برہان خیر القرون کے طرزِعمل سے ہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا بھرنوع محمو دنہیں ، مذموم ہے۔ رہا ا ٓخر میں ان کا یہ فرمان ”مرد کو صرف مرد ہونے کی وجہ سے عورت پر قطعی کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ یہ سوچ حکمت قرآنی سے متصادم ہے۔“ (اشراق: ص45) توعمل صالحہ کے اعتبار سے بلا شبہ عورت اور مرد میں کوئی تفاوت نہیں ، لیکن اس بنیاد پر کیا مرد و عورت کے تمام حقوق و فرائض بھی برابر ہیں ؟اور کیا’اشراق‘ بھی طلوعِ اسلام کی طرح مرد وزَن کے فرق کا کسی اعتبار سے قائل نہیں رہا؟ کیا وہ اپنے مرشد اور محبوب مفسر مولانا اصلاحی کی ’پاکستانی عورت دوراہے پر‘ میں نگارشات کو بھی حکمت ِقرآنی کے متصادم سمجھنے لگے ہیں ؟ جماعت ِاسلامی سے ان کے اختلاف کے وجوہ و اسباب میں عورت کے بارے میں ان کا موقف کیا حکمت ِقرآنی سے متصادم ہے؟ ہم اور کچھ نہیں کہنا چاہتے بس اتنا عرض ہے کہ اگر یہاں مرد و زن کافرق حکمت ِقرآنی سے متصادم نہیں ہے تو عورت کے پیچھے مردوں کی نماز ناجائز ہونا بھی حکمت ِقرآنی کے قطعاً متصادم نہیں !! |