جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ نے مطلقاً عورت کی اقتدا میں مردوں کی نماز کو جائز قرار نہیں دیا،بلکہ ایک خاص جزوی مسئلہ میں ، اور وہ بھی تب جب ”لم يعلم بحالهم“ اسے ان کی حالت کا علم نہیں کہ نماز پڑھانے والا کا فر و مشرک ہے، یا عورت یا مخنث ہے۔ کیاایسی صورت میں کہا جائے گا کہ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ یا امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ نے کافر کے پیچھے نماز جائز قرار دی ہے؟ اور کافر کو بھی امام بنایا جاسکتا ہے؟ ہرگز نہیں تو اس سے عورت کی امامت کا جواز کہاں سے نکل آیا؟ وہ ارادۃً اور قصداً عورت کو امام بنا کر اس کے پیچھے مردوں کی نماز قطعاً جائز قرار نہیں دیتے۔ بلکہ بے خبری میں ایسا ہوجائے تو اعادہ کا حکم نہیں فرماتے۔ مگر غور فرمایا آپ نے کہ ان کے اس موقف کو کیاسے کیا بنا کر پیش کیا گیا اور اس پر بغلیں بجائیں گئی، ان کی تعریف کے ترانے گائے گئے۔ اب یہ کون سا انصاف ہے کہ ان کے اس موقف پر عورت کو امام بنانا تو جائز قرار پائے اور کافر کو امام بنانا ناجائز رہے؟ شاید مستقبل میں یہ غامدی حضرات اپنے وسیع تر مفاد اور اتفاق بین المذاہب کے جذبہ میں یہ فتویٰ بھی صادر فرما دیں کہ کافر کے پیچھے نماز جائز اور اسے امام بنانا درست ہے!! اسی طرح امام ابوثور کا موقف بھی امام مزنی کے اسی قیاس کے تناظر میں ہے۔ علیٰ الاطلاق ان کی طرف جواز کا انتساب بہرحال درست نہیں ۔ کیونکہ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی المحلى (ج4/ ص220) میں ابو ثور کا قول عورتوں کی امامت کے بارے میں ہی نقل کیا ہے کہ وہ ان کے درمیان صف میں کھڑی ہوکر نماز پڑھائے، رہا امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا قول تو بلا شبہ علامہ ابن رشد، علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے یہ ذکر کیا ہے مگر بالاسناد ان سے یا ان کی کسی کتاب میں یہ قول نظر نہیں آیا کہ اُنہوں نے یہ کس تناظر میں فرمایا۔ عین ممکن ہے کہ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح ان کی طرف یہ انتساب بھی کسی جزئی مسئلہ کی بنا پر ہے۔ اگر اسے صحیح تسلیم بھی کیا جائے تو یہ شاذ ہے اور مفصل حدیث کا مخالف ہے۔ صحابہ اور تابعین کے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ علامہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حقیقت کا اظہا رکیا ہے کہ ”إنما اتفق الجمهور على منعها أن تؤم الرجال لأنه لوكان جائزًا لنقل |