Maktaba Wahhabi

42 - 86
امامت نہیں کراسکتی…!! امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جو بیان کیاجاتا ہے کہ وہ جواز کے قائل تھے تو یہ دعویٰ بھی علیٰ الاطلاق درست نہیں ۔ امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ نے مُختصر المُزني نے ”باب إمامة المرأة“میں صرف وہی اقوال بیان کئے ہیں جن سے عورت کی عورتوں کے لئے امامت کا جواز نکلتا ہے۔ چنانچہ اس باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی موافقت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، حضرت اُمّ سلمہ کے آثار نقل کئے ہیں کہ وہ عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں اور صف کے درمیان کھڑی ہوتی تھیں ۔ اس باب میں مردوں کے لئے عورت کی امامت کاقطعاً ذکر نہیں ۔ البتہ اس سے پہلے باب اختلاف نية الإمام والمأموم وغيرذلك میں فرماتے ہیں : القياس أن كل مُصلّ خلف جُنُب وامرأة ومجنون وكافر يجزئه صلاته إذا لم يعلم بحالهم لأن كل مُصلّ لنفسه لا تفسد عليه صلاته بفسادها على غيره قياسًا على أصل قول الشافعي … الخ ”قیاس یہ ہے کہ جو کوئی جنبی اور عورت اور مجنون اور کافر کے پیچھے نماز پڑھتا ہے تو اسے یہی نماز کافی ہے جب وہ اس کے حال سے بے خبر ہے،کیونکہ ہر نمازی اپنی نماز پڑھتا ہے اس کی نماز اس کے غیر (امام) کی نماز فاسد ہونے کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتی، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اصل قول پر قیاس کی بنا پر۔“ (مختصر المزني على هامش الأم :ج 1/ص115) علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس مسئلہ کے تحت کہ ”اگر مشرک یا عورت یا مخنث مشکل پیچھے نماز پڑھی جائے تو نماز دوبارہ پڑھی جائے۔“ فرمایا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل الراے اس صورت میں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں ۔ وقال أبوثور والمزني: لا إعادة على من صلّٰى خلفه وهو لا يعلم لأنه ائتم بمن لا يعلم حاله فأشبه ما لو ائتم بمُحدِث“ (المغنی: ج1/ ص33) ”اور امام ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ و مزنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس نے اس کے پیچھے بے خبری میں نماز پڑھی، اس پر اعادہ نہیں کیونکہ اس نے اس کی اقتدا کی ہے جس کی حالت کا اسے علم نہیں ۔ تو وہ گویا اس کے مشابہ ہے جو بے وضو امام کی اقتدا کرتا ہے۔“ یہی بات علامہ ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ نے الأوسط ج4 /ص161،162 میں بیان کی ہے۔
Flag Counter