Maktaba Wahhabi

84 - 86
” مردوں کے لئے عورت اور مخنث کی امامت علیٰ الاطلاق درست نہیں ہے ، نہ فرض میں ،نہ نفل میں ۔ البتہ اگر مقتدی صرف عورتیں ہی ہوں تب امام کے لئے مرد ہونا جمہور کے نزدیک شرط نہیں ہے۔“ (الفقہ الاسلامي وأدلتہ:ج2/ص 175) ٭ امام الحرمین جوینی رحمۃ اللہ علیہ کا دعویٰ یہ ہے کہ یہ اس مسئلہ پرمسلمانوں میں ’اجماع‘ ہے۔ وأجمعوا على أن المرأة لا يجوز أن تكون إماما(کتاب الارشاد: ص427) ٭ امام شافعی فرماتے ہیں کہ عورت کا کسی حال میں بھی مردوں کا امام بننا ہرگز جائز نہیں : لا تجوز أن تكون امرأة إمام رجل في صلاة بحال أبدًا ( الام: 1/164) ٭ عورت کی امامت کے بارے میں شیعہ کا موقف بھی ائمہ اسلاف سے مختلف نہیں جیسا کہ آغاز میں حدیث نمبر 5 کے تحت حضرت اُمّ سلمہ کے بارے میں شیعہ کتب میں مروی حدیث گزر چکی ہے، مزید برآں کتب ِشیعہ میں ابو عبد اللہ سے مروی ہے کہ توٴم المرأة النساء في الصلوة وتقوم وسطهن فيهن ويقمن عن يمينها وشمالها (الاستبصار: 1/427، الکافی: 3/376، من لا يحضره الفقيه: 1/396) ”عورت دیگر عورتوں کی ہی نماز میں امامت کراسکتی ہے۔ وہ ان کے درمیان کھڑی ہوگی، اور عورتیں اس کے دائیں یا بائیں …“ فقہا کا معمول یہ رہا ہے کہ وہ ایک مسئلہ ذکر کرتے ہوئے بعض اوقات امکانی طورپر پیش آجانے والے مسائل میں بھی اپنی رائے ذکر کردیتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ایک حدیث کے صحیح نہ ہونے کے باوجود وہ کہہ دیتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی اس سے یہ مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ ایسے ہی زیر نظر مسئلہ میں فقہا کے بعض اقوال ہیں جن کو سمجھنے میں اشراق کے مقالہ نگار کو غلطی ہوئی ہے۔جہاں تک ابو ثور رحمۃ اللہ علیہ اور مزنی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا تعلق ہے تو اس کا پس منظر اور حقیقت امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت سے پیش کردی ہے کہ وہاں یہ مسئلہ زیر بحث ہی نہیں ہے بلکہ ایک فرضی سوال کا جواب دیا جارہا ہے کہ ”اگر کوئی مشرک یا مخنث یا عورت کے پیچھے نماز پڑھ بیٹھے تو کیا اسکو نماز لوٹانا ہوگی یا نہیں ؟“ ان دونوں ائمہ فقہا کے نزدیک کافر کے پیچھے پڑھی گئی نماز لوٹانا ضروری نہیں اور یہی موقف ان کا عورت کے بارے میں ہے۔گویا اس سے پہلی
Flag Counter