Maktaba Wahhabi

83 - 86
ہے، اس میں کوئی وزن نہیں اور قرآنِ کریم یا احادیث سے اس امر کا کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔ مزید برآں جس حدیث ِامّ ورقہ سے یہ سارا استدلال کیا جارہا ہے ، اس کی صحت بھی علما کے مابین اختلافی مسئلہ ہے۔ اس حدیث کو صحیح قرار دینے والوں میں امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ (1/161، رقم 592)، امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ (3/89، رقم 1676)، بیہقی ( رحمۃ اللہ علیہ 3/130)، علامہ عینی اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ (سنن ابو داود، رقم 591) شامل ہیں ۔ مسند احمد بن حنبل کی شرح (از احمد شاکر) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حاکم رحمۃ اللہ علیہ اور ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی راویہ لیلیٰ بنت مالک صحابیہ ہیں ۔ (18/494، رقم 27158) علامہ البانی نے بھی إرواء الغلیل میں تفصیلی بحث کے بعد اس حدیث کو ’حسن‘ قرار دیا ہے۔ (2/256، رقم 493) دوسری طرف حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تلخيص الحبير(ص 121) میں اور مسند احمد رحمۃ اللہ علیہ پر الموسوعة الحديثية کے محققین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ فقہاکا نقطہ نظر اشراق کے مقالہ نگار نے بعض فقہا سے اس امر کومنسوب کیا ہے کہ ان کے نزدیک عورت کی امامت مردوں کے لئے درست ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان بعض فقہا سے یہ نسبت غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ جب ان فقہا کے اقوا ل کو ہم ان کی اپنی کتابوں یا سیاق وسباق کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ایسا کوئی موقف نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : ٭ فقہی انسا ئیکلوپیڈیا، کویت میں امامت کی شرائط میں ’مرد ہونا‘ بھی ذکر کیا گیا ہے: يشترط لإمامة الرجال أن يكون الإمام ذكرًا، فلا تصح إمامة المرأة للرجال وهذا متفق عليه بين الفقهاء (الموسوعة الفقهية: 6/204) ”مردوں کی امامت کے لئے یہ بات شرط ہے کہ امام مرد ہو۔ کیونکہ عورت کی مردوں کے لئے امامت درست نہیں ہے۔ اور یہ مسئلہ فقہا کرام کے مابین اتفاقی ہے۔“ ٭ دورِ حاضر کے نامور فقیہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی اپنی کتاب میں فرماتے ہیں : فلا تصح إمامة المرأة والخنثى للرجال لا في فرض ولا في نفل أما إن كان المقتدي نساء فلا تشترط الذكورة في إمامهن عند الجمهور…
Flag Counter