(ليس لي قائد يقودني إلى المسجد) تو آپ نے پہلے تو اسے اجازت دی، پھر یہ دیکھ کر کہ وہ اذان کی آواز سنتا ہے، اس کو مسجد میں آنے کا پابند کردیا۔ (صحیح مسلم:653) ظاہر بات ہے کہ باجماعت نماز کے علاوہ مسجد میں نماز پڑھنے کا مستقل ثواب ہے اور اُمّ ورقہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں باجماعت نماز تو ہوتی تھی، لیکن کوئی مستقل مسجد نہ تھی جیسا کہ تاریخ میں اُمّ ورقہ کی کسی مسجد کا تذکرہ نہیں ملتا۔ایک طرف تو نبی کریم ایک نابینا کو مسجد میں نماز پڑھنے سے مستثنیٰ قرار نہ دیں دوسری طرف اشراق کے مقالہ نگار صرف ایک احتمال سے موٴذن کے مسجد میں آنے کے خلاف امر کو ثابت کرنے کی کوشش کریں ، تعجب ہے !! (5) پھر اسی حدیث کے ان محتمل الفاظ کی صراحت دارقطنی کی ایک حدیث میں یوں آئی ہے:أمرها أن توٴم نساء ها آپ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے گھروالوں کی عورتوں کی امامت کرائیں ۔چونکہ حدیث کے ان الفاظ سے ابوداود کی حدیث ام ورقہ میں مرد وزَن دونوں مراد لینے کا امکان باقی نہیں رہتا، اس لئے اشراق کے مقالہ نگار اس اضافہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ دارقطنی کے اپنی طرف سے ہے کیونکہ یہ اضافہ ان کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان الفا ظ کو کئی اہل علم نے ذکر کیا ہے اور آج تک کسی نے بھی اسے دارقطنی کے الفاظ قرار نہیں دیا۔ حدیث کے یہ الفاظ امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ال تحقیق (ج1/ ص 471،طبع دار الکتب العلمیہ1415ھ) میں ،امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار (ج3/ ص201) میں ،امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے المغنی میں دو مقامات: ج1/ص 235 اور ج2/ص 16 (طبع دار الفکر بیروت، 1405) پر،کشاف القناع میں ج1/ص 235 پر، الموسوعۃ الفقہیۃ (6/204)میں اورڈاکٹر وہبہ زحیلی نے اپنی کتاب’الفقہ الاسلامی وادلتہ‘ (2/175)میں ذکر کئے ہیں ۔ان حضرات کا ذکر کرنا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ وہ اسے درست سمجھتے ہیں اور آج تک کسی نے ان الفاظ کو دارقطنی کے اپنے الفاظ قرار نہیں دیا۔ یوں بھی یہ تقاضا بڑا عجیب ہے کہ حدیث کے وہی الفاظ معتبر ہوں جو کئی احادیث میں باربار آئے ہوں !! اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ مردوں پر امامت کے سلسلے میں جو احتمال بھی پیدا کیا جارہا |