Maktaba Wahhabi

81 - 86
اسلاف سے مخالفت کا شوق چرا جائے تو احتمالات سے بھی دلائل کی ٹھوس عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے۔ ائمہ فقہا کا تو معروف اُصول ہے کہ إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال جہاں احتمال آ گیا، وہاں استدلال ختم ہوگیا، لیکن یہاں بالکل اُلٹ قصہ ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی واقعہ سے درست استدلال کرنا ہو تو اس کے امکانات بھی کم نہیں : (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تمام واقعے کی بنیاد اسی حدیث میں نبی کریم کا انہیں یہ حکم ہے قري في بيتك اپنے گھر میں ہی ٹکی رھ۔ اور اقعدي في بيتك (الاصابة: 8/479) (2) پھر انہوں نے موٴذن کی اجازت طلب کی، اس سے تو یہ پتہ چلا کہ عورت اذان نہیں دے سکتی۔ ورنہ آپ انہیں خود اذان کی اجازت بھی دے دیتے، اور اگر ان کے گھر میں کوئی مرد موجود ہوتاتو آپ اسے اذان کا حکم دیتے ۔ (3) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بوڑھا موٴذن مقرر کرنے کی ضرورت ہی اس لئے پیش آئی کہ امّ ورقہ کے گھر میں کوئی مرد موجود ہی نہ تھا۔ (4) حدیث ِاُمّ ورقہ سے اس احتمال کو ثابت کرنے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ موٴذن بھی امّ ورقہ کے پیچھے ہی نماز پڑھتا ہوگا۔جہاں تک غلام کا سوال ہے تو احادیث میں اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ غزوۂ بدر کے بعد جب نبی کریم نے انہیں امامت کی اجازت دی تو اس وقت غلام موجود تھا یا نہیں ؟ غلام اور لونڈی کا اُنہیں شہید کرنے کا واقعہ تو اس کے کم وبیش 20برس بعد پیش آیا۔ موٴذن کا حضرت اُمّ ورقہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا احتمال اس بنا پر معتبر نہیں کیونکہ اس دور میں مدینہ منورہ بہت مختصر تھا، عین ممکن ہے کہ وہ موٴذن اذان دے کر مسجد ِنبوی میں نبی کریم کی معیت میں نماز پڑھنے کا ثواب حاصل کرنے چلا جاتا ہو۔ جیسا کہ مسند احمد بن حنبل کے شارح احمد عبد الرحمن البنااپنی شرح ’الفتح الربانی‘ میں لکھتے ہیں : (5/234) فيحتمل أن الموٴذن كان يوٴذن لها ثم يذهب إلى المسجد ليصلي فيه ”ممکن ہے کہ موٴذن اذان دے کر مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کے لئے چلا جاتا ہو۔“ مزید برآں اذان سننے کے بعد مسلمان کے لئے یہ اجازت نہیں کہ وہ مسجدمیں نہ آئے۔ جیسا کہ نبی کریم کے پاس ایک نابینا آدمی یہ عذر لے کر آیا کہ مجھے کوئی مسجد تک نہیں پہنچا سکتا
Flag Counter