Maktaba Wahhabi

80 - 86
چونکہ ان تمام احادیث میں عورتوں کی امامت کرانے کا ہی تذکرہ ملتاہے، اس بنا پر ان سے یہ دلیل نہیں لی جاسکتی کہ عورت مردوں کی بھی امامت کراسکے۔ اس امر کے مشروع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی تائید میں قرآن وحدیث سے کوئی دلیل موجود ہو۔ عبادات کے بارے میں یہ مسلمہ اُصول ہے کہ وہی عبادت باعث ِثواب ہوگی جس کا ثبوت کتاب وسنت سے ثابت ہو۔ اپنے پاس سے بنائی گئی عبادت ثواب کی بجائے بدعت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب اسلام کی 14صد سالہ تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جس میں کسی عورت نے مردوں کی امامت کی ہو تو اب کیوں کر اس کو مشروع قرار دیا جاسکتا ہے ؟ سنن ابو داود میں حدیث اُمِ ورقہ آتی ہے جس میں یہ تذکرہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گھر میں رہنے کا حکم دیا، دین کے کاموں میں غیر معمولی شوق کی بنا پر پھر اُنہوں نے نبی کریم سے موٴذن کی اجازت طلب کی جو آپ نے دی دے۔ تو امّ ورقہ اپنے گھروالوں کی امامت کرایا کرتی تھیں ۔ مختصراً ٭ (سنن ابو داود:591،592 ) عورت کامردوں کی امامت کرانے کا دعویٰ کرنے والوں کا تمامتر انحصار اسی حدیث پر ہے جس میں ’گھروالوں ‘ کے لفظ میں یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ ان کے گھروالوں میں مرد بھی شامل تھے۔ مزید دعویٰ یہ بھی ہے کہ دار کا لفظ چونکہ عربی زبان میں گھر سے وسیع ترمعانی میں بولا جاتاہے، اس لئے اس سے گھر کی بجائے اہل محلہ مراد لینے چاہئیں ۔گویا اگر ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا تو ان کے محلہ میں تو کوئی مرد ضرور ہوگا اور امّ ورقہ ان سب کی امام تھیں ۔ آج تک اسلامی تاریخ میں کسی نے مردوں کے لئے عورت کی امامت کا جواز پیش نہیں کیا، امریکہ میں عورت کی امامت کا واقعہ پیش آجانے کے بعد مئی 2005ء کے ماہنامہ اشراق میں پہلی بار یہ موقف اپنایا گیا ہے اور اس موقف کی تائید کے لئے اشراق کے مقالہ نگار جناب خورشید عالم کا نصوص سے استدلال کا کل مرکز ومحور یہی ہے !! اگر ذہن میں اسلام کی خدمت کا مقصد ہو تو ایسے بعید قیاس پیدا ہی نہیں ہوتے لیکن اگر کوئی نئی بات کرنے کاسودا سما جائے اور تعامل امت کے فلسفے کا شور مچانے کے باوجود ائمہ
Flag Counter