کے مبینہ امامت کے واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بے پردہ خاتون ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور 20 مارچ 2005ء صفحہ 5 (6) احادیث میں عورت کا عورتوں کو امامت کرانے کا جو ذکر ملتا ہے، اس کی بھی صورت یہ ہے کہ امام عورت عورتوں کی امامت کرواتے وقت عورتوں کی پہلی صف ہی کے درمیان کھڑی ہوگی نہ کہ مردوں کی طرح پہلی صف سے آگے علیحدہ کھڑی ہوگی۔ چنانچہ حدیث میں ہے : (وعن ريطة قالت أمتنا عائشة فقامت بينهن في الصلاة المكتوبة) ”ریطہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ نے ہماری امامت کرائی اور آپ فرضی نماز پڑھاتے ہوئے ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں ۔“ (دار قطنی) جبکہ امینہ ودود کے مبینہ امامت کے واقعہ میں وہ مردوں کی طرح پہلی صف سے آگے علیحدہ کھڑی ہوئی۔ملاحظہ فرمائیں : روزنامہ ’نوائے وقت‘ لاہور 20 مارچ 2005ء صفحہ 5 (7) اسلام نے پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد غیر محرم مرد اور عورت کے اختلاط سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے : عن جابر قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم (ألا لايبيتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحًا أو ذا محرم) (صحیح مسلم : حدیث2171) ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : شوہر دیدہ کے ساتھ کوئی مرد (ایک مقام پر ) رات نہ گزارے اِلا یہ کہ وہ اس کا خاوند ہو یا اس کا محرم ۔“ (8) امینہ ودود کے مبینہ امامت کے واقعہ میں مرد اور عورت کے اختلاط کو پیش کیا گیا ہے اور صف میں مرد اور عورتیں مل کر کھڑے ہوئے ہیں جبکہ صحیح حدیث کے مطابق عورت اکیلی صف کا حکم رکھتی ہے، اس لئے نماز میں نہ وہ محرم کے ساتھ اور نہ ہی غیر محرم کے ساتھ صف میں کھڑی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے : (عن أنس بن مالك صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبي صلی اللہ علیہ وسلم وأمي اُم سليم خلفنا) (صحیح بخاری: حدیث 727) ”انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اور ایک یتیم بچے (ضمیرھ بن سعد حمیری) نے اپنے گھر میں نبی کریم کے پیچھے نماز پڑھی اور ہماری والدہ اُمّ سلیم ہماری پیچھے تھیں ۔“ |