(8) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے لئے جوموٴذن مقرر کیاگیا تھا وھ بوڑھا آدمی تھا۔ چنانچہ اسی روایت میں ہے:(موٴذنها شيخًا كبيرًا) مذکورہ حقائق کی روشنی میں تقریر استدلال یہ ہے کہ (1) زیر بحث روایت پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے کی ہے اور پردہ کے احکامات سورۂ احزاب اور سورۂ نور میں نازل ہوئے اور سورۂ احزاب اور سورۂ نور کا زمانہ نزول 5 اور 6 ہجری کا ہے۔ ( ملاحظہ فرمائیں : تاریخ ابن کثیر مترجم : ج 1/ ص 508،574) (2) سورۂ احزاب اور سورۂ نور کے زمانہٴ نزول کے قدر ے اختلاف کے باوجود یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ان دونوں سورتوں کا زمانہٴ نزول کسی بھی صورت میں 5 ہجری سے پہلے کا نہیں ہے، جبکہ سیدہ اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کی امامت کا واقعہ غزوۂ بدر کا ہے جو 2 ہجری میں ہوا۔ (3) سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی زیر بحث روایت سے اگر عورت کا مردوں کی امامت کروانا اور وہ بھی غیر محرم مردوں کو ثابت بھی ہو جائے تو وہ بھی قرآنِ مجید میں پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد منسوخ ہوجائے گا۔ واللہ اعلم (4) قرآنِ مجید میں پردہ کے احکام نازل ہونے کے بعد یہ ثابت ہے کہ عورت اپنا چہرہ بھی غیرمحرم سے چھپائے گی۔چنانچہ صحیح حدیث میں ہے : (عن عائشة زوج النبي صلی اللہ علیہ وسلم … وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني من ورآء الجيش فأدلج فأصبح عند منزلي فرأىٰ سواد إنسان نائم فأتاني فعرفني حين رآني وكان يرانى قبل الحجاب فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني فخمرت وجهي بجلبابي…) (صحیح بخاری:4141) ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے … کہ صفوان بن معطل سلمی ذکوانی لشکر کے پیچھے رھ گیا تھا، راتوں رات سفر کرکے وہ صبح جب میریقریبی مقام پر پہنچ گیا تو اس نے ایک سوئے انسان کو پایا سو اس نے مجھے پہچان لیاکیونکہ حجاب نازل ہونے سے قبل اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ مجھے پہچاننے پر اس کے انا لله وانا اليه راجعون کہنے سے میں بیدار ہوگئی، تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔“ (5) اخبار میں شائع ہونی والی خبر اور تصویر کے مطابق امریکہ کے شہر نیویارک میں امینہ ودود |