Maktaba Wahhabi

73 - 86
جب ہم زیر بحث روایت کا تجزیہ اس کے تاریخی پہلو سے کرتے ہیں تو درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں : (1) زیر بحث روایت کے الفاظ (عن اُم ورقة بن نوفل أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم لما غزا بدرًا) (ابوداود : حدیث591)سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غزوۂ بدر کا ہے اور غزوۂ بدر 17/ رمضان 2 ہجری کا واقعہ ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں : طبقات ابن سعد مترجم ’مسلمانوں کی بدر میں آمد‘ج 1/ ص312، نفیس اکیڈیمی اُردو بازار کراچی ، طبع ششم ، ستمبر 1987ء) (2) سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی زیر بحث روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے قبل اذان اور اقامت کے ساتھ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا فرض ہوچکا تھا۔ اسی لئے سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے موٴذن مقرر کرنے کی درخواست کی۔ (3) اس سے قبل مرد، خصوصاً اور عورتیں عموماً مسجدمیں حاضر ہوکر نماز اداکرتے۔ (4) سنن ابوداود کی پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے موٴذن مقرر کرنے کی درخواست کی۔ (5) اس روایت میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے گھر والوں کی امامت کروانے کا حکم دیا یا سیدہ اُم ورقہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر والوں کی امامت کرواتی تھی جبکہ پروفیسر خورشید عالم کے نزدیک یہ حدیث کامل تر ہے۔ (6) اس روایت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ سیدہ اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کا ایک غلام اور ایک لونڈی بھی تھے لیکن کسی روایت میں یہ صراحت نہیں ہے کہ غلام بھی سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی اقتدا میں نماز پڑھتا تھا۔ یہ صرف احتمال ہے کہ غلام بھی سیدہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی اقتدا میں نماز پڑھتا تھا کیونکہ جب موٴذن ہی ایک بوڑھے آدمی کو مقرر کیا گیا تھا تو پھر کسی نوجوان مرد کا کسی غیر محرم عورت کی اقتدا میں نماز پڑھنا کیونکر جائز ہوسکتا تھا؟ (7) سنن ابوداود کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی ملاقات کے لئے ان کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے لئے ایک موٴذن مقرر کردیا تھا جو اذان کہا کرتا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اپنے گھر والوں کی امامت کرتی تھیں ۔
Flag Counter