کرتی تھیں ۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو راتوں میں آبادی کا گشت کیا کرتے تھے، ان کی تلاوت سنا کرتے تھے۔ اس میں ہے کہ” صبح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کل شب میں نے اپنی خالہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی قرا ت نہیں سنی۔ وہ ان کے گھر (دار) میں داخل ہوئے، وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ ان کی خواب گاہ (بیت) میں گئے تو ان کی لاش ایک چادر میں لپٹی ہوئی ملی۔ (ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ، الإصابة في تمييز الصحابة:4/505 مطبعة السعادة مصر 1328ھ، ) یہ وہ کل معلومات ہیں جو حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں دستیاب ہوسکی ہیں ۔ احادیث، سیر صحابہ رضی اللہ عنہم و صحابیات رضی اللہ عنہن اور تاریخ کی کتابوں میں ان کے بارے میں اور کچھ مذکور نہیں ہے۔ ان کے شوہر، بچوں ، خاندان اور رشتہ داروں کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اس روایت میں موجود لفظ ’دار‘ کو محلہ کے معنی میں لینا صحیح نہیں ہے۔ اس میں ہے کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک موٴذن رکھنے کی اجازت طلب کی تھی۔ یہ موٴذن اگر محلہ کی مسجد کے لئے تھا تو اس کے لئے حضور سے اجازت لینے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اس کے لئے يؤذن لها (وہ ان کے لئے اذان دیتا تھا) کی تعبیر کیوں اختیار کی گئی؟وہ تو محلہ کی مسجد کا موٴذن تھا اور اهل محله کے لئے اذان دیتا تھا۔ عربی زبان میں ’دار‘ اور ’بیت‘ کا استعمال ایک معنی میں بھی ہوتا ہے اور الگ الگ معنی میں بھی۔ اسی طرح احادیث میں بھی ان کا استعمال دونوں صورتوں میں ہوا ہے۔ الگ الگ معانی میں مستعمل ہوں تو ’بیت‘ خواب گاہ کے معنی ہیں اور ’دار‘ کسی دوسرے کام میں استعمال ہونے، مکان یا احاطہ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ الإصابة میں مذکور روایت سے بھی یہی بات نکلتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی قرا ت شب میں نہیں سنی تو وہ اگلی صبح تحقیق حال کے لئے پہلے ان کے ’دار‘ یعنی گھر کے احاطہ میں داخل ہوئے، وہاں کچھ نظر نہ آیا۔ ان کے ’بیت‘ یعنی خواب گاہ میں پہنچے تو چادر میں لپٹی ہوئی لاش پائی۔ اس روایت میں ’دار‘ پر محلہ کا مفہوم کسی طرح فٹ نہیں ہوتا۔ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے افراد خانہ کون کون تھے؟ جن کی امامت کرنے کا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا۔ ایک غلام اور ایک لوندی، ان میں اس موٴذن کو بھی شامل کرنا چاہئے جو ان کے لئے اذان دیتا تھا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا اور ان |