Maktaba Wahhabi

71 - 86
کے افرادِ خانہ کو مسجد کی حاضری سے کیوں مستثنیٰ کردیا تھا؟ بہت سی احادیث میں مسجد جانے اور وہاں باجماعت نمازادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا تھا کہ جو خواتین مساجد جاکر باجماعت نماز ادا کرنا چاہیں اُنہیں نہ روکیں ۔ جو لوگ بغیر کسی عذر کے اداے نماز کے لئے مسجد نہیں جاتے، ان کے بارے میں آپ نے سخت وعید سنائی ہے۔ پھر حضرت اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ خصوصی اجازت کیوں دی گئی کہ وہ اپنے گھر ہی میں اذان دلوا دیں اور جماعت قائم کرلیں ۔مسجد کی حاضری پر زور دینے والی احادیث کومستحضر رکھنے اور اس حدیث کے پس منظر پر عذر کرنے سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں : (1) حضرت اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کے افرادِ خانہ میں ان کا ایک غلام اور ایک لونڈی تھے۔ ان کے موٴذن کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان تینوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ (2) حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کا مکان آبادی سے کچھ ہٹ کر تھا اور اس سے متصل دوسرے مکانات نہیں تھے۔ اس کا اشارہ اس سے ملتا ہے کہ ان کے غلام اور لونڈی کو ان کا گلا گھونٹ کر فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ (3) قریب میں کوئی مسجد نہیں تھی جہاں حضرت اُم ورقہ رضی اللہ عنہا اور ان کے افرادِ خانہ باجماعت نماز کے لئے جاسکتے۔ اگر ہوتی تو وہ خود بھی اور ان کے افرادِ خانہ بھی وہاں جاتے اور جماعت میں شریک ہوتے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر پر اذان دلوانے اور جماعت کرنے کی خصوصی اجازت حاصل کرلی تھی۔ (4) حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا حافظہ قرآن تھیں جب کہ ان کے افرادِ خانہ کو قرآن کا خاطر خواہ حصہ یاد نہیں تھا۔ اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امامت کرنے کا حکم دیا تھا۔ پورے ذخیرۂ حدیث میں صرف یہی ایک روایت ہے جس سے عورت کی امامت کا استنباط کیا جاسکتا ہے۔ عہد ِنبوی کا صرف یہی ایک واقعہ ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے گھر پر اذان دلوانے اور ایک خاتون کو جماعت کی امامت کرنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی تھی، یہ ایک استثنائی حالت ہے۔ آج کل بھی کہیں اس طرح کے حالات ہوں تو اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن استثنا کو عمومی حکم بنا دینا اور اس کی بنیاد پر عام حالات میں مخلوط جماعت کے لئے عورت کی امامت کو جائز قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
Flag Counter