الفاظ یہ ہیں : جعل لها موٴذنا يؤذن لها (آپ نے ایک موٴذن مقرر کردیا تھا جو ان کے لئے اذان دیتا تھا) دوسری بات یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے گھر والوں کی امامت کرنے کا حکم دیا تھا: (وأمرها أن تؤم أهل دارها) (سنن ابو داود، کتاب الصلوٰۃ، باب امامۃ النساء: حدیث نمبر 591،592) یہ روایت سنن ابو داود کے علاوہ بعض اور کتب ِحدیث میں بھی مروی ہے۔ سب میں یہی مضمون مذکور ہے۔ بعض روایات میں صراحت ہے کہ امامت کا یہ حکم فرض نمازوں کے لئے تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کا حکم عورتوں کی امامت کے سلسلے میں تھا، لیکن بیشتر روایات میں یہ اضافہ نہیں ہے۔ روشن خیال دانشو روں نے روایت میں موجود لفظ ’دار‘ کو محلہ کے معنی میں لیا ہے اور اس سے یہ مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو اپنے محلہ والوں کی امامت کا حکم دیا تھا۔ بالفاظ دیگر و ہ اپنے محلے کی مسجد کی امام تھیں ۔ سنن ابو داود کی مذکورہ روایت میں حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ بھی مذکور ہے کہ غزوۂ بدر کے موقع پر اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا: اے اللہ کے رسول! مجھے اپنے ساتھ غزوہ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرمائیں ، میں مریضو ں کی خدمت کروں گی اور شاید اللہ تعالیٰ مجھے بھی شہادت نصیب فرمائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اپنے گھر میں رہو، اللہ تعالیٰ تمہیں وہیں شہادت نصیب فرمائے گا، اسی بنا پر انہیں ’شہیدہ‘کہا جاتا تھا۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملاقات کرنے وقتاً فو قتاً ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ایک غلام اور ایک لونڈی رہتے تھے۔ امّ ورقہ رضی اللہ عنہا نے اُنہیں مدبر بنا دیا تھا۔ یعنی ان سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم دونوں آزاد ہو۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد ِخلافت میں ان دونوں نے جلد آزادی پانے کے مقصد سے ایک رات ایک چادر سے ان کا گلا گھونٹ کراُنہیں شہید کردیا اور بھاگ گئے۔صبح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ہوئی تو انہوں نے اعلانِ عام کردیا کہ جس کسی کو ان دونوں کا پتہ چلے یا اُنہیں دیکھے تو انہیں پکڑ کر لائے۔ بالآخر وہ گرفتار ہوئے اور اُنہیں پھانسی دے دی گئی۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو قرآنِ کریم حفظ تھا (كانت قد قرأت القرآن) ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب الاصابة سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رات میں بلند آواز سے تلاوت کیا |