Maktaba Wahhabi

65 - 86
سلف صالحین کے نزدیک حدیث اُمّ ورقہ کا مفہوم اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ سلف صالحین نے اس حدیث کا کیا مطلب لیا ہے؟ یہ اس صورت میں ہے کہ اس حدیث کو قابل حجت تسلیم کر لیا جائے، وگرنہ اوّلاً تو ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ یہ حدیث حسن اور قابل حجت ہے۔ اور گذشتہ اوراق میں ہم تفصیل کے ساتھ اس روایت کا ضعیف اور ناقابل حجت ہو نا واضح کرچکے ہیں ۔ لیکن بالفرض اگر ہم اس حدیث کو قابل حجت تسلیم کربھی لیں تو بھی اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو یہ اشراقی فرقہ مراد لے رہا ہے۔ اس حدیث کا مطلب بجز اس کے کچھ نہیں ہے کہ عورت کی امامت فقط عورتوں کے لئے جائز ہے۔ اس حدیث سے عورت کی مردوں کے لئے امامت کا جواز کشید کرنا قطعاً غلط ہے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جتنے بھی محدثین اور ائمہ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے، انہوں نے اس سے عورت کی عورتوں کے لئے امامت پر ہی استدلال کیا ہے اور محدثین نے اس پر جو ابواب قائم کئے ہیں ،وہ بھی عورت کی عورتوں کے لئے امامت کے ہی ہیں اور تمام سلف صالحین نے بھی اس سے یہی سمجھاہے، لہٰذا ہمیں اللہ کے فرمان:﴿اَلَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ أَحْسَنَه﴾(الزمر:18)کے تحت اسلاف کی اس تشریح پر عمل کرنا چاہئے اور لغوی جھمیلوں ، تعمیماتِ بعیدہ سے قطع نظر ہوکر اپنی طرف سے کوئی ایسا مطلب کشید نہیں کرنا چاہئے جو سلف صالحین کی تشریحات سے متصادم ہو۔ خوارج اور دیگر گمراہ فرقے جنہوں نے اسلام سے انحراف کی راہ اختیار کی، اس کے پیچھے بھی دراصل سلف صالحین کی اتباع سے گریز پائی ہی کارفرما تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو براہ راست چشمہ نبوت سے سیراب ہوئے، پھر ان کے فیض یافتگان تابعین، ائمہ حدیث اور ائمہ فقہا جو عربی زبان کی باریکیوں کو ہم سے زیادہ جانتے تھے ،ان میں سے کسی نے بھی اس حدیث کا یہ مفہوم مراد نہیں لیا، جملہ محدثین نے اس حدیث کے اوپر إمامة المرأة النساء کا عنوان قائم کیا ہے۔ پھر دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصریح موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کروائے۔
Flag Counter