ہے۔ جس نے ان کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے ، اسے دراصل اس قول: إن كل من صحتْ صلاته صحت أمامتُه سے غلط فہمی ہوئی ہے ،حالانکہ یہ ایک عمومی قاعدہ ہے۔ ٭ جہاں تک ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس قول کی نسبت کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی کسی کتاب میں اس کی تصریح نہیں کی،البتہ ابن رشد رحمۃ اللہ علیہ نے بداية المجتہد میں ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ اور مزنی کی طرف اس قول کو منسوب کرتے ہوئے اسے شاذ قرار دیا ہے ۔ نیز یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ طبری دو اشخاص ہیں ، ایک اہل سنت میں سے ہے اور دوسرا شیعہ ہے۔لہٰذا یہ تعین بھی ضروری ہے کہ یہ ابن جریر طبری شیعہ ہے یا سنی؟ قرین قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ ابن جریر شیعہ ہے، کیونکہ عورت کی امامت شیعہ کے ہاں جائز ہے نیز یہ بات بھی ثابت ہوچکی ہے کہ اس حدیث کا مرکزی راوی الولید بن عبداللہ جمیع شیعہ ہے تو کوئی بعید نہیں ہے کہ یہ ابن جریر بھی شیعہ ہو۔ میں عرصہ سے یہ سنتا آرہا تھا کہ ابن جریر طبری وضو میں پاوٴں پر مسح کا قائل ہے اور اس کا موقف یہ ہے کہ ”أرجلِكم میں لام کے نیچے کسرہ کی قرا ت کی بنا پر آدمی کو اختیار ہے کہ چاہے تو پاوٴں کو دھولے اور چاہے تو ان پر مسح کرلے۔“لیکن بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو واضح ہوا کہ اس سے مراد وہ معروف ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ نہیں ہے، بلکہ یہ ابن جریر شیعہ ہے جو پاوٴں پر مسح کے جواز کا قائل ہے اور غلط فہمی سے بلا سوچے سمجھے اس قول کو معروف ابن جریر کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ چنانچہ حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ عورت کی امامت کے جواز کا قائل ابن جریر شیعہ ہے۔ بالفرض اگر ان سے یہ قول ثابت ہو بھی جائے تو تب بھی یہ شاذ ، صحیح احادیث اور جمہور اُمت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔ اور ایسے شاذ اقوال کی تلاش اور جستجو کرنا شریعت کی نظر میں انتہائی مذموم ہے اور سلف نے ایسے شخص کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو علما کے شاذ اقوال اکٹھے کر کے امت میں فتنہ کا بیج بوتا ہے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اسماعیل القاضی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں ایک دفعہ معتضد کے پاس حاضر ہوا جو بنو عباس کا ایک فرمانروا گزرا ہے، تو انہوں نے |