Maktaba Wahhabi

62 - 86
ابوثور رحمۃ اللہ علیہ ، مزنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب قول کی حقیقت اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ابوثور رحمۃ اللہ علیہ ، مزنی رحمۃ اللہ علیہ اور امام طبری رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب اس قول کہ ”عورت عو رتوں کے علاوہ مردوں کی امامت بھی کروا سکتی ہے۔“کی حقیقت کیا ہے ؟اور ان ائمہ کی طرف اس قول کی نسبت کس حد تک درست اور ان کی کلام کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ جب ہم فقہا کی اس سلسلہ میں عبارات کے تناظر میں غور کرتے ہیں تو واضح ہو تا ہے کہ ان کی طرف اس قول کی نسبت بے محل ہے اور غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے اصل حقیقت کو واضح کردیا ہے ، فرماتے ہیں : أما المرأة فلا يصح أن يأتم بها الرجل بحال في فرض ولانافلة في قول عامة الفقهاء وقال أبوثور: لا إعادة على من صلى خلفها وهو قياس قول المزني ”عام فقہا کا مسلک یہ ہے کہ عورت کسی بھی صورت میں مردوں کی امامت نہیں کروا سکتی، نہ فرض نماز میں اور نہ نفل نماز میں ، البتہ ابوثور کا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی شخص عورت کے پیچھے نما زپڑھ لے تو اس کے لئے نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے۔ اور مزنی کا بھی یہی نقطہ نظر ہے جوکہ انہوں نے (امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر) قیاس کرتے ہوئے اختیار کیا ہے۔“ توابوثور اور مزنی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو شخص بھول کر یا غلطی سے عورت کے پیچھے نماز پڑھ لے، اسے معلوم نہ ہو کہ امام عورت ہے تو اس کے لئے نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے۔چنانچہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وقال أبو ثور والمزني: لا إعادة على من صلىّٰ خلفه وهو لا يعلم لأنه ائتم بمن لا يعلم حاله فأشبه ما لو ائتم بمحدث ”ابوثور رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس نے نادانستہ اس( عورت، مشرک یا مخنث مشکل) کی اقتدا میں نما زپڑھ لی، اس کے لئے نماز کو لوٹانا ضروری نہیں ہے، کیونکہ اس نے اس کی اقتداکی ہے جس کی حالت کا اسے علم نہیں ۔ تو اس کا حکم بھی اس شخص کی طرح ہے جو بے وضو امام کی اقتدا کرتا ہے ۔“ ثابت ہوا کہ مزنی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف عورت کے لئے مرد کی امامت کے جواز کا قول منسوب کرناغلط
Flag Counter