Maktaba Wahhabi

61 - 86
” اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا ان کو امامت کرواتیں اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوتیں ۔“ (الام :رقم 315 ) اور مصنف عبدالرزاق کے الفاظ ہیں کہ أمتنا اُمّ سلمة في صلاة العصر فقامت بيننا ( رقم :5082) ” اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں نمازِ عصر کی امامت کروائی اور ہمارے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔“ امام البانی نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (دیکھئے:تمام المنۃ ص 154) (4) محمد بن الحصین نے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ”حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ماہ رمضان میں عورتوں کو امامت کرواتیں اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوتیں ۔“ (الدرايةاز ابن حجر: 1/149 ) (5) عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: توٴم المرء ة النساء تقوم في وسطهن (مصنف عبدالرزاق ، رقم :5083 ) ”عورت عورتوں کو امامت کرواتے ہوئے ان کے درمیان میں کھڑی ہوگی۔“ ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت صرف عورتوں کو امامت کروا سکتی ہے اور وہ بھی ان کے درمیان میں کھڑی ہوکر ،یہی ازواجِ مطہرات کا عمل تھا اور یہی حبرالامة حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے۔ عورت کی امامت کے سلسلہ میں فقہا کا نقطہ نظر اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ عورت کی امامت کے سلسلہ میں فقہا کا نقطہ نظر کیا ہے؟ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا عورت کا عورتوں کو باجماعت نما زپڑھانا مستحب ہے یا نہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ مستحب ہے، یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ، اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا ، عطا ، سفیان ثو ری، اوزاعی، امام شافعی، اسحاق اور ابوثو ر رحمہم اللہ سے مروی ہے۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ یہ غیر مستحب ہے اور اہل الراے کے نزدیک یہ مکروہ ہے، لیکن نماز ہوجائے گی۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ نفلی نماز میں جائز ہے، فرض نماز میں جائز نہیں ۔“ واقعہ یہ ہے کہ اوّل الذکر قول ہی صحیح اور آثار کے مطابق ہے ، عورت کا عورتوں کی امامت کو مکروہ قرار دینا یا فرض ونفل کا فرق کرنا، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
Flag Counter