Maktaba Wahhabi

58 - 86
ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو الوہم والإيہام (5/23) میں مجہول الحال قرار دیا ہے۔ یہی بات ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی التھذیب میں ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کی ہے ۔ مسندامام احمد کے محققین نے اس کو اسی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔ ٭ نیز عبداللہ بن جمیع کی دادی، جس کی متابعت کی گئی ہے، اس کا نام مستدرک حاکم کی صراحت کے مطابق لیلیٰ بنت مالک ہے۔ (1/203) اس کو بھی ابن قطان رحمۃ اللہ علیہ نے الوہم والايہام (5/23 )میں مجہول الحال قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ التقریب( رقم 8909) میں وليد بن عبدالله عن جدته عن أم ورقةکے ترجمہ میں لکھتے ہیں : ”اسکی جدہ سے مراد لیلیٰ بنت مالک ہے جو غیر معروف ہے۔“ علما کی ان تصریحات سے یہ ثابت ہوا کہ لیلیٰ بنت مالک بھی مجہولہ ہے۔چنانچہ ایسی روایت جس کے تمام طرق میں کلام ہو اور ہر طرق میں متعدد رواۃ مجہول الحال ہوں ، کو بعض حضرات کا حسن قرار دینا ناقابل فہم اور قابل افسوس امرہے۔ ایسی محتمل روایت سے اُمت میں فتنہ کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ٭ اس روایت کے ضعیف ہونے کی ایک اور علت ؛ طرق میں اضطراب ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ التهذيب میں اس حدیث کی راویہ امّ ورقہ رضی اللہ عنہا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامت کی اجازت دی تھی، کے ترجمہ میں فرماتے ہیں : ”اس حدیث کو الولید بن عبداللہ بن جمیع نے اپنی دادی سے روایت کیا ہے اور بعض نے دادی کی جگہ پر ان کی ماں کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وليد عن جدته ليلىٰ بنت مالك عن أبيها عن أم ورقة۔(گویا یہاں لیلیٰ بنت مالک اور اُمّ ورقہ کے درمیان لیلیٰ کے باپ کا واسطہ بھی ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ ولید نے اپنے دادا سے اور اُنہوں نے اُمّ ورقہ سے روایت کیا، گویا یہاں دادی کی بجائے دادا ہے اور ان کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں ہے۔ اور بعض نے یہ سند اس طرح ذکر کی ہے کہ:وليد عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أم ورقة اور بعض کے نزدیک سند یوں ہے : عن عبدالرحمٰن بن خلاد عن أبيه عن أم ورقة قالت :استاذنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ( یعنی اس میں سند کے
Flag Counter