Maktaba Wahhabi

57 - 86
مرتبے کے راویوں کی حدیث قابل استدلال نہیں البتہ ان کی حدیث لکھی جائے گی اور اس کے بعداسے پختہ کار ثقہ رواۃکی احادیث پر پیش کرکے پرکہا جائے گا۔ اگر وہ ان کے ساتھ موافق ہو تو قابل استدلال و گرنہ نہیں ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس راوی کو محدثین نے صدوق قرار دیا ہو،اس کی حدیث تحقیق اور پرکھ کے بغیر قابل استدلال نہیں ہے، لہٰذا جس نے صدوق کی حدیث کو حسن قرار دیا ہے، اسے وہم ہوا ہے کیونکہ حسن حدیث قابل حجت ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل اور حفاظ حدیث کا یہی موقف ہے۔“ محدثین کے اس اُصول کے پیش نظر ہم یہ بات بلا خوفِ تردیدکہہ سکتے ہیں کہ جس نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے، اُس نے محدثین کے اس اصول سے انحراف کیا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ مزید معلومات کے لیے ملاحظہ ہو: مقدمة الجرح والتعديل از ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اور علوم الحدیث از ابن صلاح رحمۃ اللہ علیہ (ص110) والتقريب مع التدريب (1/343) اور فتح المُغيث(1/368) وغیرہ ٭ اگر اس پر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ نے جو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے ،کیا اس سے قبل بھی علمانے اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے یا محض قواعد کو سامنے رکھ کر آپ نے اس حدیث کو ضعیف کہہ دیا ہے ؟ تو ہمارا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس حدیث کو متعدد ائمہ نے حسن قرار دیا ہے ،لیکن کئی علما نے اس کو ضعیف بھی کہا ہے۔چنانچہ مسند احمد پر الموسوعة الحديثية کے نام سے تحقیق کرنے والے علما نے مذکورہ سند کی بنیاد پراس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے: مسند احمد، رقم: 27282، 27283) لہٰذا ہم اس حدیث کو ضعیف قرار دینے میں منفرد نہیں ہیں ۔ اور میں اس سے قبل یہ وضاحت کرچکا ہوں کہ جن حضرات نے اس حدیث کو حسن کہا ہے، اُنہوں نے دراصل اس اصولی قاعدہ سے چشم پوشی کی ہے کہ صدوق راوی کی روایت کو تحقیق و پرکھ سے قبل ’حسن‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ٭ اب ہم جائزہ لیتے ہیں اس حدیث کے دوسرے راوی عبدالرحمن بن خلاد الانصاری کا جنہوں نے اس حدیث میں عبداللہ بن جمیع کی دادی کی متابعت کی ہے۔
Flag Counter