مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”میں نے عقل ودین میں ناقص ان عورتوں سے بڑھ کر کسی اور کو نہیں دیکھاجو دانا آدمی کی مت ماردیتی ہوں ۔“ عورتوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! ہمارے دین اور عقل میں کیا خرابی ہے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کے مقابلے میں تمہاری گواہی کا آدھا ہونا تمہارے نقص عقل کی دلیل ہے اور حالت ِماہواری میں تمہارا نماز اور روزہ سے دستکش ہوجانا تمہارے نقص دین کی دلیل ہے۔ “ (صحیح بخاری:2004،مسلم:1/86) جب عورت عام معاملات میں بھی مرد کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتی تو امامت ِنماز جو نہایت اعلیٰ اور ارفع منصب ہے، مرد کی جگہ میں عورت کو اس منصب پر فائز کرنا اور ناقص کو کامل کا امام بنانا بھلا کیسے درست ہوسکتا ہے؟(دیکھئے:مغنی المحتاج: 1/240) (4) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَى النِّسَاءِ﴾ ”مرد عورتوں پر قوام ہیں ۔“ اس آیت سے معلوم ہوا کہ ولایت اور امامت کا منصب اللہ نے مردوں کو سونپا ہے، عورتوں پر اس کا بار نہیں ڈالا تو نماز کی امامت بھی اسی امامت ِکبریٰ کی ایک قسم ہے، لہٰذا عورت مرد کی امام نہیں بن سکتی جو کہ اس کا قوام و نگہبان ہے۔ قرونِ ثلاثہ میں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین ادوار قرار دیا ہے، کہیں بھی یہ ذکر موجود نہیں کہ عورتوں نے کبھی مردوں کی امامت کروائی ہو، اگر کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا تو تاریخ کبھی اسے نظر انداز نہ کرتی ۔ لہٰذا تاریخ میں کسی ایسے واقعہ کا نقل نہ ہونا اس حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ شریعت نے عورت کو مردوں کی امامت سے گراں بار نہیں کیا۔ (کتاب الام از شافعی: 1/164، بداية المجتہد : 1/156) امامت اگر منصب ِ عظیم ہے تو اس کی ذمہ داری اور تقاضے بھی اسی قدر بڑے ہیں تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جس ذمہ داری سے اللہ نے عورت کو معاف رکھا ہے، اس پر خواہ مخواہ اس عظیم ذمہ داری کا بار ڈال دیا جائے؟ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو باجماعت نماز کا سرے سے پابند ہی نہیں کیا، نہ ہی مردوں کی طرح اُن کا مسجد میں جاکر نماز پڑھنا فرض ہے۔ |