حدیث اُمّ ورقہ کی اسانید اور ان پر حکم یہاں اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اُمّ ورقہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے گھر میں موٴذن مقرر کرنے کی استدعا کی تھی جو ان کے گھر میں اذان دیتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم ورقہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کروائے۔اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن خلاد کہتے ہیں کہ میں نے اُم ورقہ کے موٴذن کو دیکھا ، وہ انتہائی ضعیف العمر آدمی تھا۔ تو لفظ اہل الدار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر کے مردوزَن اور غلام سب کو امامت کرواتی تھی لہٰذا عورت کی امامت جس طرح عورتوں کے لئے جائز ہے، مردوں کے لئے بھی جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوثور، مزنی، طبری کا بھی یہی موقف ہے۔ (المغنی: 2/199) جواب:یہ اعتراض دراصل اس مذکورہ روایت کی حقیقت کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا چند اُمور کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے: (1) سب سے پہلے اس حدیث کے تمام طرق کو ذکر کرتے ہوئے ان کے رواۃ کے احوال کو واضح کیا جائے گا کہ سند کے لحاظ سے یہ حدیث کس پایہ کی ہے۔ (2) یہ واضح کیا جائے گاکہ اسلاف ِاُمت نے اس حدیث سے کیا سمجھا ہے، قطع نظر اس کے کہ لغت میں لفظ ’دار‘کس معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ (3) آخر میں یہ واضح کیا جائے گاکہ مذکورہ ائمہ کی طرف عورت کی امامت کے جواز کی نسبت میں کس حد تک صداقت ہے اور اس نسبت کی حقیقت کیا ہے؟ اُمید ہے ان امور کی وضاحت سے اصل حقیقت مبرہن ہوجائے گی۔ جہاں تک اس حدیث کے مختلف طرق کا تعلق ہے تو واضح ہو کہ اس حدیث کو امام ابوداود نے کتاب الصلوۃ (رقم:577)، امام حاکم نے مستدرک(1/203)،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند(6/405)، امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن (1/403) امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے السنن الکبریٰ (3/130) اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح(3/89) میں روایت کیا ہے۔ اب ان طرق کی اسانید ملاحظہ ہوں : |