Maktaba Wahhabi

40 - 86
ہوئی ہو۔ چار دیواری سے یا دو پہاڑوں سے یا کسی اور چیز سے۔ قبیلے محلے اور شہر و علاقے پر اس کا اطلاق مجازی ہے، حقیقی نہیں ۔”أهل الدار“ اسی معنی میں ہے جس میں ہم اہل خانہ کا لفظ بولتے ہیں ۔ یعنی گھر میں جو عورتیں ہوتیں ، ان کی امامت کی حضرت اُمّ ورقہ کو اجازت دی گئی۔ مگر اس لفظ کو اپنے تمام تر مفہوم میں مراد لینا محض ہوسناکی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اس کا اطلاق شہر، علاقے بلکہ سارے جہاں پر بھی ہے تو اسے ’خاندان والوں ‘ کے لئے خاص قرار دینا کس دلیل پر مبنی ہے؟جیسا کہ خورشید صاحب نے اس کا یہی ترجمہ کیا ہے ۔ یہ اجازت شہر بلکہ پورے علاقے کے مرد اور عورتوں کی امامت کے لئے کیوں نہیں ؟ جب ان اطلاقات کی بجائے اس کے معنی ’خاندان والوں ‘کیا جاتا ہے جو بہرحال مجازی معنی ہے تو حدیث میں اس کی جو تعیین نساء ہاسے ہے،اس حقیقی معنی اور مفہوم سے انکار کیوں ہے؟ اور یہ تو مسلم اُصول ہے کہ الحديث يفسر بعضہ بعضًا کہ ایک حدیث دوسری کی تفسیر کرتی ہے،بلکہ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے ”تؤم أهل دارها“ کے الفاظ سے جو روایت ذکر کی ہے، اس پر باب ہی یہ قائم کیا ہے:”باب إمامة المرأة النساء في الفريضة“ (ج3 /ص89) ”یہ باب ہے عورت کی عورتوں کے لئے امامت کا، فرض نمازوں میں ۔ “ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس حدیث پر یہی باب قائم کیا ہے : امامة المرأة النساء في الفرائض“ (مستدرک حاکم: ج1/ ص203) امام محمد بن نصر مروزی نے بھی اس سے عورت کی عورتوں کے لئے امامت پر ہی استدلال کیا ہے، ان کے الفاظ ہیں : باب المرأة تؤم النساء في قيام رمضان وغيرہ (قیام اللیل ص162)بلکہ امام ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ نے تو حضرت امّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے ترجمہ میں فرمایا ہے کہ”كانت تؤم الموٴمنات المهاجرات“وہ مہاجر صحابیات کی امامت کراتی تھی۔ (الحلية:ج2/ ص63) جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرات محدثین نے بھی ’اهل دار‘ کی امامت سے صحابیات کی امامت ہی مراد لی ہے، صحابہ کرام کی نہیں اور یہی فقہاء و محدثین کی رائے ہے۔ اس کے برعکس جن حضرات نے اس میں مردوں کی امامت بھی مراد لی ہے، ان کے پیش نظر سنن دارقطنی کی روایت نہیں ۔ اور مردوں کی شمولیت بھی محض ظن و تخمین کی بنیاد پر
Flag Counter