Maktaba Wahhabi

39 - 86
نے دارقطنی کے اسی حصہ سے عورتوں کے لئے عورت کی امامت پر استدلال کیا ہے۔ خورشید صاحب کا یہ ترجمہ کہ ”وہ اپنی عورتوں کی امامت کیاکرتی تھیں “ ہی دراصل اس وسوسہ شیطانی کا باعث ہے۔ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے الفاظ سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ اس حدیث میں ”أذن لها“ کا تعلق جس طرح ”يؤذن لها ويقام“ سے ہے، اسی طرح ”وتؤم نسائها“سے بھی ہے۔ یہ آخری الفاظ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوداود رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے الفاظ ہیں : ”وأمرها أن تؤم أهل دارها“ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں ”أَمَرَها“ کے الفاظ ساتھ ہیں جبکہ دارقطنی میں ”أَذِن لها“ ابتدا میں ہیں ۔ اور یہ اِذن جس طرح اذان و اقامت کے لئے ہے، عورتوں کو نماز پڑھانے کیلئے بھی ہے، اس کوعلیحدہ جملہ قرار دینا محدثین کے اُصول سے بے خبری ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ملحوظِ خاطر ہو کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اِتحاف المهرة (ج18/ص 323) میں اوّلاً سنن دار قطنی سے یہی روایت نقل کی، اس کے بعد مزید اس کے طرق واطراف کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے ابن الجارود،ابن خزیمہ،حاکم اور مسند امام احمد کاحوالہ دیا اور ان کی اسانید بیان کیں ۔ حالانکہ سنن دار قطنی کے علاوہ باقی مراجع میں ”أن توٴم أهل دارها“ کے الفاظ ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا یہ اُسلوب بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہ ایک حدیث ہے اور”أهل دارها“ کا وہی مفہوم ہے جو دار قطنی میں ”توٴم نسائها“کے الفاظ کا ہے۔ اس لیے سنن دار قطنی کی روایت کا انکار بھر نوع غلط اور ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے۔ ہوس ناکی کی انتہا دارقطنی کی روایت سے جان چھڑانے کے لئے جو بھدا طریقہ اختیار کیاگیا، اسی کے ساتھ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ خورشید صاحب لکھتے ہیں : ”حدیث میں ’أهل دارها‘ہے ’أهل بيتها‘ نہیں ۔”أهل الدار کے معنی قبیلے والے، محلے والے،خاندان والے ہیں ۔ بلکہ شہر، علاقے اور سارے جہاں کے لئے بولاجاتا ہے۔“ (ماہنامہ اشراق :ص37) بلا شبہ ’دار‘ کا لفظ بڑا جامع ہے مگر اصلاً یہ لفظ اسی جگہ پر بولا جاتا ہے جو ارد گرد سے گھری
Flag Counter