نہیں ۔ یہ ان کی اپنی رائے ہے۔“ إنا لله وإنا إليه راجعون! حالانکہ یہ محض وسوسہ شیطانی ہے کہ ”یہ امام دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں ، حدیث کے الفاظ نہیں “ بلکہ یہ امام دارقطنی پر بہتان ہے کہ اُنہوں نے اسے حدیث میں شامل کردیا۔ اس کے برعکس علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ تو فرماتے ہیں ”هذه الزيادة يجب قبولها“ کہ” اس زیادت کو قبول کرنا واجب ہے۔“ علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے ال تحقیق میں یہ روایت نقل کی اور اسی پر ولید اور اس کی والدہ پر جرح کی کہ ”ولید ضعیف اور اس کی والدہ مجہولہ ہیں ۔“ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ”ولید قابل احتجاج نہیں ۔“ (ال تحقیق : ج1/ ص313 رقم 387)۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تنقيح ال تحقیق میں بھی دارقطنی کی یہی روایت ذکر کی اور فرمایا کہ”لا يصح“ یہ صحیح نہیں ۔(ج1/ ص119) مگر اس آخری جملہ کو یہ کہہ کر کسی نے ردّ نہیں کیاکہ یہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں یایہ مرفوع حصہ نہیں ۔ علامہ ابن عبدالہادی نے بھی تنقيح ال تحقیق (ج1 /ص293) میں یہ روایت نقل کی اور امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی تردید کی کہ انہوں نے جو اس روایت کو ضعیف قرار دیا،یہ صحیح نہیں لیکن اس جملہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی جو اشراق میں کہی گئی ہے۔ بلکہ خود علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے آگے مسائل الجماعة والإمامةمیں فرمایا کہ يستحب للنساء أن يُصلين جماعة کہ ”عورتوں کے لئے مستحب ہے کہ وہ جماعت سے نماز پڑھیں ۔“ اس کے لئے اُنہوں نے اسی دارقطنی کی روایت سے استدلال کیا، ان کے الفاظ ہیں : لنا حديث أمّ ورقة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أذن لها أن تؤم نسائها (ج1/ص471 ) ”ہمارے موقف کی دلیل اُمّ ورقہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی کہ وہ اپنی عورتوں کی امام بنے۔“ بلکہ انہوں نے مزیدیہ بھی نقل کیا : ”وروي في حديث: تصلي معهن في الصف“ ” ایک حدیث میں بیان ہوا کہ وہ ان عورتوں کے ساتھ صف میں کھڑی ہوکر نماز پڑھے۔“ علامہ ابن عبدالہادی رحمۃ اللہ علیہ نے التنقيح (ج1/ص11) اور علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تنقيح ال تحقیق ج1/ ص253 میں بالکل اسی طرح نقل کیا جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان حضرات |