Maktaba Wahhabi

37 - 86
کے پیچھے ہو۔“ یعنی تراویح میں بھی عورت امام ہو تو مردوں کے آگے نہیں بلکہ پیچھے کھڑی ہوکر نماز پڑھائے۔ اسی کی تردید علامہ ابن قدامہ نے کی کہ تراویح کے ساتھ تخصیص اور ”اشتراط تأخرها“ (عورت کا مردوں کے پیچھے ہونے کی شرط) تحکم اور خلافِ اُصول ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جن ’بعض حنبلی اصحاب‘ نے عورت کے لئے نماز تراویح میں مردوں کی امامت جائز قرار دی ہے، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ مردوں کے آگے بڑھ کر امام نہ بنے بس پیچھے رہ کر نماز پڑھائے، گویا مقتدی آگے اور امام پیچھے۔ان کے اس موقف کی جو تردید کی، اسے تو اشراق میں بیان کردیا گیا مگر درمیان میں امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ فرمایا تھا : ”ولاخلاف في أنها لاتؤمهم في الفرائض“ اور اسی میں کوئی اختلاف نہیں کہ عورت فرض نمازوں میں مردوں کی امامت نہ کرائے، اسے بڑی دلیری سے حذف کردیا گیا۔ ع دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا !! سنن دارقطنی کی حدیث سنن دارقطنی باب ذكر الجماعة وأهلها وصفة الإمام کے حوالے سے امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس روایت کی طرف اشارہ کیا، اس کے مکمل الفاظ مع سند یوں ہیں : حدثنا أحمد بن العباس البغوي ثنا عمر بن شبة ثنا أبو أحمد الزبيري نا الوليد بن جُميع عن أمه عن أم ورقة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أذِن لها أن يُؤَذَّنَ لَهَا ويُقَامَ وَتَؤُمَّ نِسَاءَ هَا (سنن دار قطنی:ج1/ص278 ، حدیث 1069) اس حدیث کی ابتدائی سند صحیح اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ ولید بن جمیع بھی ثقہ ہیں ۔ البتہ ان کی والدہ جس سے وہ روایت کرتے ہیں ، ان کی توثیق منقول نہیں ۔ مگر اس روایت سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کو گھر کی عورتوں کو نماز پڑھانے کی اجازت دی گئی تھی، مگر خورشید صاحب پہلے اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں : ”اُمّ ورقہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تھی کہ اس کے لئے اذان دی جائے اوراقامت کہی جائے اور وہ اپنی عورتوں کی امامت کیا کرتی تھی۔ “ (اشراق :38) ثانیاً، اسی ترجمہ کی بنا پر یہ کہا گیا کہ ”یہ امام دارقطنی کے اپنے الفاظ ہیں ، حدیث کے الفاظ
Flag Counter