Maktaba Wahhabi

36 - 86
الفرائض بدليل أنه جَعَل لها مؤذِّنا والاذان إنما يُشرعُ في الفرائض ولا خلاف في أنها لا تؤمهم في الفرائض ولأن تخصيص ذلك بالتراويح واشتراط تأخرها تحكُّمٌ يخالف الأصول بغير دليل … الخ ”اگر یہ زیادت نہ ہوتی، تب بھی حدیث کو اسی معنی میں متعین کیا جائے گا کیونکہ اُمّ ورقہ کو فرض نمازوں کی امامت کی اجازت دی گئی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ان کے لئے موٴذن مقرر کیا گیا اور اذان فرض نمازوں کے لئے ہی مشروع ہے اور اس میں تو کوئی اختلاف نہیں کہ عورت مردوں کی فرائض میں امام نہ بنے، اور اسلئے بھی کہ اس کی تراویح کے ساتھ تخصیص اور یہ شرط کہ وہ (مردوں کے) پیچھے رہے، تحکم ہے جو بلادلیل اُصول کے مخالف ہے۔“ اس عبارت کے بعد علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کے موقف میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ اُنہوں نے واضح اور صاف طور پر حضرت اُمّ ورقہ کی امامت کوسنن دارقطنی کی روایت کی بنا پر گھر کی عورتوں کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر یہ واضح روایت نہ بھی ہوتی تب بھی اسے عورتوں کے لئے مخصوص سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ فرض نماز کے لئے عورت کی اقتدا نہ کرنے میں (حنابلہ کے ہاں ) کوئی اختلاف نہیں ۔ اور اسی روایت کو تراویح کے لئے جو بعض نے محمول کیا ہے اور ساتھ ہی یہ شرط بھی لگائی ہے کہ وہ امام عورت ، مقتدی مردوں سے پیچھے رہے یہ تحکم ہے اور اُصول کے خلاف ہے۔ مگر اس کے بالکل برعکس اشراق کے مقالہ نگارلکھتے ہیں : ”چنانچہ المغنی میں ابن قدامہ کہتے ہیں کہ ہمارے بعض حنبلی اصحاب کا قول ہے کہ عورت کے لئے نمازِ تراویح میں مردوں کی امامت جائز ہے۔ ابن قدامہ ان اصحاب کی مخالفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کیلئے موٴذن مقرر کیا تھا جس سے پتاچلتا ہے کہ فرائض میں امامت کی اجازت دی گئی، کیونکہ اذان تو صرف فرضوں کیلئے دی جاتی ہے۔“ (اشراق :41) یہاں بھی یہ کھیل کھیلا گیا ہے کہ پہلے تو علامہ ابن قدامہ نے ’بعض حنبلی اصحاب‘ کا جو موقف ذکر کیاتھا، وہ مکمل طور پر نقل نہیں کیا۔ ثانیاً انکی جو تردید تھی، اسے بھی پوری طرح بیان نہیں کیا۔ ’بعض حنبلی اصحاب‘ فرماتے ہیں کہ”يجوز أن تؤم الرجال في التراويح وتكون وراء هم“ ”جائز ہے کہ عورت مردوں کو تراویح میں امامت کرائے اور عورت ان
Flag Counter