اِس کے بعد اُنہوں نے امام ابوثور رحمۃ اللہ علیہ اور امام مزنی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف نقل کیا ہے۔ پھر”بعض أصحابنا“کہہ کر یہ نقل کیا ہے کہ ”مرد تراویح میں عورت کی اقتدا کرے مگر عورت، مردوں کے پیچھے کھڑی ہو۔ کیونکہ اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٴذن مقرر کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے ’اہل خاندان‘کی امامت کرے۔ یہ حکم مردوں اور عورتوں کے لئے عام ہے۔“ (المغنی:3/ 32) غور فرمایا آپ نے کہ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ تو اسے بعض حنابلہ کی دلیل کے طور پر ذکر کررہے ہیں مگر اشراق کے مضمون نگار جناب خورشید عالم اسے امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ذکر کرتے ہیں بلکہ فرماتے ہیں انہوں نے اس موقف کی ”عورت محض عورت کی امامت کرے“ تردید کی ہے اور فرمایا کہ اس حدیث میں حکم ”مردوں اور عورتوں کے لئے عام ہے“ حالانکہ انہوں نے ”عورت محض عورت کی امامت کرے“ کے موقف کی قطعاً تردید نہیں کی بلکہ جن بعض حنبلی حضرات نے نفلی نماز، مثلاً تراویح میں مرد کے لئے عورت کی امامت پر اس روایت سے استدلال کیا ہے، ان کا موقف نقل کیا ہے۔ اب ہم خورشید عالم صاحب کی عبارت فہمی پر بجز اس کے اور کہہ سکتے ہیں کہ سخن فہمی عالم بالا معلوم شد! رہا علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ کا موقف جو انہوں نے ابتدا میں عموماً فقہا کرام سے نقل کیا ہے، اسکی تائید اور(بعض أصحابنا)بعض حنابلہ کے سابقہ موقف کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”وحديث أمّ ورقة: إنما أذن لها أن تؤم نساء أهل دارها كذلك رواه الدارقطني وهذه الزيادة يجب قبولها … الخ“ (المغنی 2/33مع الشرح الکبیر) ”اور (رہی) حدیث ِاُمّ ورقہ تو بے شک اُنہیں اہل خانہ کی عورتوں کو نماز پڑھانے کی اجازت دی تھی جیسا کہ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے روایت کیا ہے، اس زیادت کو قبول کرنا واجب ہے۔“ اس کے بعد اُنہوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر یہ تعیین کہ اُنہیں عورتوں کو نماز پڑھانے کی اجازت دی گئی تھی، نہ ہوتی تب بھی روایت اسی پر محمول تھی کہ وہ عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں ۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں : ”ولو لم يُذكر ذلك لتعيَّنَ حملُ الخبر عليه لأنه أذِن لها أن تؤمَّ في |