Maktaba Wahhabi

66 - 70
کے اصرار پر کہ محدثِ شہیر حافظ عبد المنان وزیر آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی مسجد اور مسندِ تدریس کو آباد کریں ، وزیر آباد تشریف لے گئے اور ۱۹۶۱؁ تک وہاں کام کیا۔ وہاں سے واپس آکر دو سال وہاڑی اور ایک سال لاہور دھرمپورہ میں ایک علمی مرکز مدرسہ نظامی کی بنا ڈال کر صحیحین کی تدریس کرتے رہے۔ مسلسل درس و تدریس سے صحت جواب دے گئی اور گھر واپس آگئے۔ آخری ایام میں بغرضِ علاج اپنے صاحبزادے حافظ ثنا اللہ صاحب ایم۔ اے پروفیسر اسلامیات و عربی و خطیب جامع مسجد رحمانیہ پونچھ روڈ کے پاس مقیم تھے اور یہیں وفات پائی۔ سیرت: مولانا نہایت عقلمند اور فہم و فراست کے مالک تھے۔ طبیعت سادہ اور نرم تھی۔ لیکن حق گوئی میں بے باک تھے۔ عقیدہ کے معاملہ میں کوئی رو رعایت نہیں رکھتے تھے۔ ہمیشہ اوّل وقت نماز پڑھنے کے پابند تھے۔ باجماعت نماز کے لئے سینکڑوں بار گرد و باراں کا مقابلہ کیا۔ درس ہمیشہ دیتے جس دن نہ دیتے طبیعت خراب رہتی اورکہتے آج روحانی غذا سے محروم ہوں ۔ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں بھی کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ حافظ ثنا اللہ صاحب کالج سے آتے تو انہیں حدیث پڑھانے میں مشغول ہو جاتے۔ اور یہ سلسلہ بڑی باقاعدگی سے جاری رہتا۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو دین و دنیا کی سربلندیوں پر سرفراز فرمائے جو اللہ تعالیٰ نے کسی حد تک پوری کر دی۔ ان کے بڑے صاحبزادے حافظ ثنا اللہ صاحب کالج میں تدریس اور دینی خدمات میں دن رات منہمک رہتے ہیں ۔ ان کی حالیہ خدمات مسجد میں خطبہ و درس کے علاوہ مجلس التحقیق الاسلامی اور ماہانہ محدث لاہور کے لئے وقت ہیں ۔ آخری ایام: آخری ایام میں مشکوٰۃ شریف کی ’’کتاب الایمان‘‘ اور باب عیادۃ المریض و ثواب المرض بڑے جذبے اور اصرار سے سنتے۔ کہتے جب سے ہوش سنبھالی ہے کوئی نماز نہیں چھوڑی۔ اب آخری ایام میں بے نماز کر کے رخصت نہ کرنا۔ جب شدید بیماری میں بار بار غنودگی آتی تو ایک صاحؓزادے کو کہتے کہ میرا گھٹنا ہلاتے رہو تاکہ غفلت کا شکار نہ ہو جاؤں اور دوسرے کو کہتے کہ نماز بآواز بلند پڑھو اور اس کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے۔
Flag Counter