اور ایک اک ہستی جو ایک انمول گوہر تھی۔ جن کے فراق کے زخم ابھی تازہ ہیں ۔ جن پر لگانے کو مرہم ملی نہ ڈاکٹر، کہ ایک اور علمی گھرانے کے سربراہ حضرت مولانا عبد اللہ کلسوی رحمہ اللہ کی وفات کی خبر ملی۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون۔ اللّٰهم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بدہٖ۔ مولانا تقریباً ۱۹۱۲ میں موضع ’’کلس راجپوتاں ‘‘ تحصیل قصور ضلع لاہور (حال امرتسر) میں تولد ہوئے مرحوم چھ بھائی اور ان کی ایک ہمشیرہ تھی۔ آبائی پیشہ زمینداری اور کاشتکاری تھا۔ قرآن مجید ناظرہ اپنی ہمشیرہ سے پڑھا (جن کے لئے تادمِ حیات دعاگو رہے) ۱۲ برس کے تھے کہ والدین یکے بعد دیگر داغِ مفارقت دے گئے۔ پہلے بھائیوں کے ساتھ کاشتکاری میں ہاتھ بٹاتے رہے۔ مگر خدا کو کسی اور مقام پر لے جانا مقصود تھا۔ لہٰذا تعلیم حاصل کرنے کا شوق چرایا اور محمد سلیمان نامی اپنے ایک دیہاتی دوست کے ساتھ گھڑیالہ، مولانا سید محمد شریف صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کے علمی ذوق و شوق کو دیکھ کر سید صاحب نے از خود چار پانچ ماہ بعد مدرسہ شمشیہ بمقام دیرووال ضلع امرتسر میں مولانا محمد ابراہیم صاحب باقی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیج دیا۔ جہاں اڑھائی سال زیر تعلیم رہے۔ بعد ازاں امرتسر مدرسہ غزنویہ تقویۃ الاسلام میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ جہاں مولانا نیک محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے زانوئے تلمذ طے کیا۔ امرتسر میں قیام کے دوران انہیں خطیبِ ملت حافظ محمد اسماعیل روپڑی رحمۃ اللہ کے ہمراہ شیخ التفسیر حضرت مولانا حافظ محمد حسین امرتسری (روپڑی) رحمۃ اللہ علیہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا۔ تحصیل علم کے بعد سندِ فراغت لے کر اپنے گاؤں ’’موضع کلس‘‘ واپس آئے اور لوجہ اللہ ودرس و تدریس میں مصروف ہو گئے اور سورۃ الحمد سے سورۃ الناس تک قرآن مجید کا درس دیا۔ پھر تقسیم ملک کے بعد مضافاتِ قصور میں ایک قصبہ ’’سرہالی کلاں ‘‘ میں رہائش پذیر ہوئے۔ چار دفعہ حج کیا۔ پہلی دفعہ ۱۹۵۰ میں بمعہ اہل و عیال تشریف لے گئے۔ مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان کے روزے بھی رکھے۔ پھر مزید تین بار ۱۹۵۱، ۱۹۵۳ اور ۱۹۶۳ میں زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے۔ آخری بار بھی بچے ہمراہ تھے۔ ۱۹۵۶ میں مولانا عبد الحمید صاحب سوہدروی اور مولانا محمد اسماعیل صاحب گوجرانوالہ رحمۃ اللہ علیہما |