Maktaba Wahhabi

60 - 70
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ دنیا کی سیاست پر دو قوتیں چھائی ہوئی ہیں ۔ دونوں قوتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے اور اندروی نفاق رکھنے کے باوجود اس امر پر متفق ہیں کہ کوئی تیسری قوت ابھر کر ان کے مد مقابل نہ آنے پائے۔ اس کے لئے ان کے آپس میں کچھ خفیہ معاہدے بھی ہیں جہاں بھی انہیں ایسی قوت کے ابھرنے کا خدشہ در پیش ہوتا ہے۔ وہاں جنگ مسلط کر دی جاتی ہے یا ان کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس قوت کا پنپنے کا موقع ہی نہ ملے۔ اس وقت انہیں سب سے زیادہ خدشہ چین اور اسلامی ملکوں سے ہے۔ چینی قوت کو ختم کرنے کے لئے ویت نام، کوریا اور کمبوڈیا وغیرہ کی طویل جنگیں دنیا کی نظرووں سے پوشیدہ نہیں ۔ ویت نام کو شمالی اور جنوبی ویت نام اور کریا کو بھی شمالی اور جنوبی کوریا، جرمنی کو مشرقی و مغربی جرمنی میں تقسیم کرنا اور بندر بانٹ کا پس منظر بھی پس ذہنیت ہے۔ اِدھر ترکی کیلئے قبرص، عربوں میں فلسطین، پاک و ہند میں کشمیر ایسے مسائل ہیں جو کبھی پر امن بات چیت اور مناسب ذرائع سے حل نہیں ہو سکتے۔ ان کے لئے لازمی فیصلہ کن جنگوں کی ضرورت ہے۔ اس صورتِ حال سے یہ دونوں قومیں دوسری قوموں کو بلیک میل کر رہی ہیں اور ہر محاذ آزادی پر انہوں نے اپنے اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں اور ہر جگہ نام نہاد طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک ہی قسم کی قوم کو دو متحارب قوتیں بنا دیا ہے تاکہ یہ قومیں آپس میں لڑتی رہیں اور دنیا میں طاقت کی اجرہ داری ان کی رہے۔ اب بحرِ ہند سے برطانیہ کے جانے کے بعد دونوں قوتیں اس بات کا اندازہ کر رہی ہیں کہ کون یہاں پر مسلط ہو گا۔ سیاسی مبصروں کے خیال کے مطاق دونوں قوتوں میں اس بارے میں خاصی حد تک مفاہمت ہو چکی ہے لیکن در پردہ ونوں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے ہیں اور اپنی اپنی اجارہ داری کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ اگر مفاہمت کی کوئی صورت پیدا ہوئی، قوت کے سامنے دیوار کھڑی کرنے کے مقصد کے پیش نظر ہو گی۔ دونوں قوتیں چاہتی ہیں کہ برصغیر پاک و ہند پر چین کے اثرات نہ پڑنے پائیں لیکن پاک چین دوستی ان کے راستے میں حائل ہے۔ اس لئے برصغیر میں اپنا اثر و نفوذ ڈالنے کے دو طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں اور کریں گے۔ ایک تو یہ کہ کسی طرح دونوں ملکوں کے
Flag Counter