جیسی عیسائی فلسطینی تنظیموں کو حریت پسند تنظیموں میں چھوڑ رکھا ہے۔ حقیقت میں اس طرح کی دیگر تنظیمیں جو اصل میں سامراجی طاقتوں کی ایجنٹ ہیں ۔ یہودیوں کے مشن کو پورا کرنے کے لئے سوشلزم کا لبادہ اوڑھ کر ان کی صفوں میں انتشار پیدا کر رہی ہیں ۔ عرب میں کمیونسٹ اور سمراجی تنظیموں کا درود: سوال پیدا ہوتا ہے کہ تحریک آزادی میں کمیونسٹ اور سامراجی تنظیمیں کہاں سے اور کب داخل ہونا شروع وہئیں ۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ صرف اتنا بتا دینا کافی ہے کہ تحریک آزادی جب صرف مظاہروں تک محدود تی تو ان مظاہروں کے دوران اکثر اوقات خونریز تصادم بھی ہو جاتا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۳۰ میں فلسطینی قوم پرست تحریک میں ایسے عرب باشندوں نے آنا شروع کر دیا جو کمیونسٹ اور بورژوائی طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آنے کے بعد تحریک میں مختلف تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں ۔ جولائی ۱۹۳۲ میں فلسطین میں ان کی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ایک سیاسی پارٹی کی تشکیل کا باعث بنیں جسے استفلال پارٹی کے نام سے پکارا جانے لگا۔ اس جماعت کا بھی نعرہ وہی تھا جو آج ہمارے یہاں سوشلسٹ اور دیگر بائیں بازور سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں لگاتی ہیں ۔ جس کا بنیاددی مقصد انگریزوں اور امریکی کومتوں کو سامراج حکومتیں قرار دے کر ان کے خلاف مزید نفرت پھیلا کر کمیونسٹ اور سوشلسٹ، حلقوں کی طرف سے یہ تاثر دِلانا کہ وہی تمہاری حمایت کا دم بھرتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک اعلان میں جاگیرانہ قیادت پر ناہلی کا الزام لگایا۔ اور سامراج ک خلاف تشدد کے ذریعے تحریک کو اس کے اعلیٰ و ارفع مقاصد حاصل کرنے کو اپنا مقصد قرار دیا۔ ۱۹۳۳ میں مظاہروں کی نوعیت بدل گئی۔ ان میں یہودیوں کی نسبت برطانیہ کے خلاف زیادہ زہر اگلا گیا۔ اس کے بعد ۱۹۳۹ میں تنظیم دو واضح دھاروں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ایک کا تعلق دائیں بازو سے تھا۔ جس میں موسیٰ عالمی، احمد شکیری اور دیگر مشہور و معروف لوگ شامل تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عرب قوم کا پہلا فرض مغربی ملکوں کے ساتھ باہمی احترام و مساوات کی بنیادوں پر اپنے تعلقات استوار کرنا ہے۔ دوسری تنظیم کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ اس تنظیم میں کمیونسٹ یہودی بھی |