Maktaba Wahhabi

57 - 70
اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اب مصر کس طرف رُخ کرے گا۔ نیو یارک میں گزشتہ دنوں چار بڑی طاقتوں کا غیر سفارتی اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں تصفیہ طلب امور پر بحث کی جانی تھی مگر امریکی نمائندہ صرف اس وجہ سے اجلاس سے واک آؤٹ کر گیا کہ اس نے پہلے یہ شرط رکھ دی تھی کہ وہ اس وقت تک اس اجلاس میں شریک نہیں ہو گا جب تک کہ نہر سویز سے روسی میزائل ہٹانے کی قرار داد منظور نہیں کی جائے گی۔ جب کہ محمود ریاض نے اعلان کر دیا تھا کہ نہر سویز سے ایک میزائل بھی نہیں ہٹایا جائے گا۔ یہ میزائل قریباً تیس مقامات پر نہر کے ساتھ سات لگے ہوئے ہیں اور وہ اسرائیل سے اتنے نزدیک ہیں کہ ان سے اسرائیل پر آسانی سے حملہ کیا جا سکتا ہے۔ ان مقامات کو اور قریب لایا جا رہا ہے اور ان میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کے باوجود معمولی معمولی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں طرف سے اقوامِ متحدہ میں شکایات پہنچائی جا رہی ہیں ۔ صدر ناصر کی وفات اور اردن میں خانہ جنگی کے واقعات سے اسرائیل کے کچھ حوصلے بلند ہوئے تھے مر انوار السادات کی انتہاء پسندی اور روس کی مسلسل امداد کی وجہ سے وہ اب خائف نظر آرہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی پشت پناہی اور مسلسل فوجی امداد کے علاوہ فوج کی افرادی قوت میں نازک اوقات کے دوران مغربی طاقتوں اور خود اسرائیل کے رضا کاروں کی خدمات کا سہارا اس کے لئے کسی وقت بھی کم دِلی کا سبب نہیں بنا اسے یہ بھی معلوم ہے کہ امریکہ کا اس کے ساتھ اور روس کا عربوں کے ساتھ خلوص کس حد تک سچا ہے۔ پھر ۱۹۶۷؁ کی جنگ میں جنگی منصوہ بندی میں کون سی طاقت برتر رہی ہے۔ اس یہ بھی معلوم ہے کہ عراق اور شام کی فوجی طاقتوں میں لڑنے کی صلاحیت اور معیار کیا ہے۔ اُسے اگر ڈر ہے تو اردن کی شیر دل بری فوج سے ہے باوجود انتہائی کم وسائل کے اس میں لڑنے کی پوری پوری صلاحیت اور حوصلہ موجود ہے لہٰذا اسرائیل کی جنگی تیاریوں کا تمام تر مرکز مصر اور اردن کے محاذ پر ہے۔ مصر سے اس لئے خائف ہے کہ وہ طاقت کے لحاظ سے اس کا ہم پلہ ہے۔ چنانچہ اُردن کے حوصلے پست کرنے کے لئے اس نے جارج حبش اور نائف حواتمہ
Flag Counter