Maktaba Wahhabi

54 - 70
کا سبب بنے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا حال: خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ غصے میں ایک شخص کے سر پر کوڑا دے مارا اور بعد میں احساس ہوا کہ اس بے چارے کو ناحق مار پڑی ہے تو اس کے پیچھے بھاگے اور اسے اپنا بدلہ لینے اور ان کے سر پر کوڑا مارنے کے لے مجبور کیا کیونکہ یہ بات ان کے ذہن میں پختہ تھی کہ اس شخص کی جان خود آپ کی اپنی جان سے کچھ کم محترم نہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عدالت کے کٹہرے میں : پھر چشم عالم نے یہ بھی دیکھا کہ خلیفہ وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ مدعی بن کر عدالت میں گئے تو مدعا علیہ کے ساتھ عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے اور کھڑے رکھے گئے حالانکہ ان کا مدعا علیہ شخص ایک یہودی تھا۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور قاضیٔ عدالت دونوں جانتے تھے کہ ایک مدعی کی حیثیت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات یہودی سے زیادہ محترم نہیں اور نہ ہی یہودی مدعا علیہ ہوتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ کم احترام کا سزا وار۔ ایسے قوانین کے موجود ہوتے ہوئے اور ان پر عمل بھی کرنے کا نتیجہ تھا کہ مملکت اسلامیہ میں معاشرتی اعتبار سے پورا امن تھا اور ہر شخص دوسرے کے جان و مال اور عزت کا احترام کرتا تھا۔ اسی بنا پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک عورت زیوروں سے لدی پھندی صنعا سے چل کر حضر موت تک سفر کرے گی اور اسے کسی انسان سے خوف نہ ہو ا۔ مساوات کا یہ تصور اسلام کے سوا دنیا کے کسی قانون میں نہیں پایا جاتا۔ حتیٰ کہ وہ ممالک بھی ایسی مساوات پیش نہیں کر سکتے جو آج تہذیبِ نو کی زمامِ قیادت سنبھالے ہوئے ہیں اور جنہیں دنیا والے بڑا مہذب سمجھتے ہیں ۔ ان کے ہاں انسان اور انسان کے درمیان بڑے بڑے امتیازات ہیں اور آئین میں ایسی دفعات رکھی جاتی ہیں جن کے ذریعے خاص حیثیت کے حامل افراد کو قانون کی گرفت سے بالا تر قرار د دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا اپنی تمام تر ترقی کے باوجود آج تک معاشرے کی ان اقدار سے محروم ہے
Flag Counter