قوانین وضع کئے گئے اور پوری قوت اور حکومت کی مشینری کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ ایک طائرانہ نگاہ اس عملی پہلو پر بھی ڈال لیجئے۔ قریشی خاتون کا واقعہ: بنو مخزوم کی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب چوری کی تھی تو اس کا ہاتھ اسی طرح کاٹ دیا گیا جس طرح اس جرم میں کسی دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹا جاتا اور ان کا ایک اعلیٰ خاندان کا فرد ہونا قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا۔ یہ ان کے اس جرم کی سزا تھی کہ انہوں نے اس مال کا وہ احترام نہ کیا جس کا وہ مستحق تھا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ: پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جب منصبِ خلافت کے لئے منتخب ہوئے تو آپ نے اپنے پہلے ہی خطبے میں یہ حقیقت واضح کر دی کہ ہر شخص کے بنیادی حقوق یکساں حفاظت کے مستحق ہیں ۔ فرمایا: ’’تم میں کا کمزور میرے نزدیک طاقت ور ہے۔ جب تک میں اس کا حق اس تک نہ پہنچا دوں اور تم میں کا طاقتور میرے نزدیک کمزور ہے جب تک میں اس سے حق وصول نہ کر لوں ۔ یہ فرمان اسی احساس کا مظہر تھا کہ شریعت محمدی میں ہر کسی کا جان و مال اور عزت یکساں محترم پھر پورے دورِ صدیقی میں اس فرمان پر پورا پورا عمل ہوا۔ ابن عمر کو کوڑوں کی سزا: اور یہ بھی واقعہ [1]ہے کہ ضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے شراب نوشی کا فعل سر زد ہوا۔ تو وہ بھی قانون کی گرفت سے بچ نہ سکے۔ انہیں اسی طرح کوڑے مارے گئے جس طرح اس فعل کے مرتکب کسی دوسرے شخص کو مارے جاتے اور ان کا خلیفہ وقت کا بیٹا ہونا ان کے کسی کام نہ آیا بلکہ اس کا سبب بنا۔ کہ جب وہ اپنی کمزوری اور تکلیف کی شدت سے فوت ہو گئے تو ان کی مردہ لاش پر کوڑوں کی تعداد پوری کی گئی۔ کیونکہ اگرچہ وہ خلیفہ وقت کے بیٹے تھے لیکن قانون کی نگاہ میں ایک عام شہری تھے اور انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی کہ وہ کسی ایسے فعل کا ارتکاب کریں جس سے معاشرتی نظام میں خلل واقع ہونے کا خدشہ ہو اور دوسروں کے جان و مال اور عزت کے لئے خطرے |