فرد کے مال و جان اور عزت کا احترام کیا جاتا ہے اور اس کو اس طرح تحفظ دیا جاتا ہے جس طرح کسی اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کو حاصل ہوتا ہے۔ خطبہ حجۃ الوداع: محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ مکمل اسلامی نظام کا بہترین خلاصہ ہے اور جس مجمع میں آپ نے وہ خطبہ دیا وہ اس دور کے مسلمانوں کا عظیم ترین مجمع تھا۔ وہاں غریب بھی تھے اور امیر بھی، سرمایہ دار بھی اور مزدور بھی، زمیندار بھی تھے اور مزارع بھی۔ بڑے بڑے تاجر بھی تھے اور خوردہ فروش بھی، طاقتور بھی تھے اور کمزور بھی۔ علاقوں کے گورنر بھی تھے اور ان کی نگرای میں زندگی گزارنے والی رعایا بھی۔ غرضیکہ عرب سوسائٹی کے تقریباً ہر طبقہ کے افراد موجود تھے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا۔ الا ان دمائکم واموالکم واعراضکم حرام علیکم کحرمۃ یومکم ہذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا۔ خبردار تمہارے خو، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تمہارے لئے اسی طرح واجب الاحترام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے میں اور اس شہر میں تمہارے لئے قالِ احترام ہے۔ یہ ارشاد اسلامی معاشرہ کی بنیاد ہے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا لاکھ کے قدسی صفات عظیم مجمع میں بیان فرمایا اور کسی قسم کا استثناء نہیں کیا بلکہ اس بات پر زور دیا کہ تم میں سے ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ وہ دوسروں کی جان، مال اور عزت کا پورا پورا احترام کرے اور ان کو اتنا ہی قیمتی سمجھے جتنا وہ اپنے جان و مال اور عزت کو قیمتی سمجھتا ہے۔ نہ وہ ناحق کسی کی جان لے، نہ اس کامال چھین اور نہ اس کی عزت کو پامال کرنے کے در پے ہو۔ خواہ وہ مالدار ہے یا غریب۔ طاقتور ہے یا کمزور۔ اعلیٰ حیثیت کا مالک ہے یا ادنیٰ کا۔ پھر ا ن تینوں جزوں کی قدر و قیمت کا اندازہ اس طرح کروایا کہ ان کی حرمت کو حجۃ الوداع کے دن کی اس حرمت کے برابر قرار دیا جو ذوالحجہ کے مہینے میں اور مکہ مکرمہ میں لوگوں کے دلوں میں ہوتی ہے۔ خصوصاً جب کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ان میں شامل تھے۔ مساوات کے یہ اصول صرف وعظ و نصیحت کی چیز ہی نہیں بنے بلکہ اس کے لئے باقاعدہ |