Maktaba Wahhabi

48 - 70
جو سکولوں کالجوں سے فارغ ہو کر معاشرہ میں شامل ہوئی ہے یا زیر تعلیم ہے۔ انتہائی گستاخ، فرض ناشناس سینما کی عادی، فحاشی کی رسیا اور بے راہ روی کا منبع و مخرج بن چکی ہے۔ یہ سب اسی ذلیل، بے معنی، لغو اور لچر تعلیم کے برگ و بار ہیں جس میں نیکی، اصلاح، اخلاق، دین، مذہب کے سوا باقی سب کچھ ہے۔ اب یہی نوخیز نسل ملک میں اُدھم مچانے کے لئے پر تول رہی ہے۔ خدا و رسول کو دقیانوس، اسلام کو کہنہ، دین کو نامکمل اور قرآن کو فرسودہ قرار دے رہی ہے۔ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور خلافتِ راشدہ کی بجائے لینن، مارکس اور ماؤ ماؤ ماؤ کے نظریات کی زیادہ شائق اور دلدادہ ہے۔ جس کی نظریں مکہ و مدینہ کی بجائے ماسکو اور چین کی طرف اُٹھ رہی ہیں اور قدیم مغربی تعلیم یافتہ طبقہ یورپ زدگی کا ذہنی مریض اور تہذیبِ افرنگ کا غلام بے دام بنا پھرتا ہے اگر کچھ کمیابی و نایابی ہے تو غلامانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ حاملانِ قرآن کی ہے اور دلدادگانِ دین مبین کی ہے اور بس سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیوں ؟ جو بونے پر گندم نہیں کاٹت۔ یہی اصولِ فطرت ہے۔ ہم نے اب تک جس قسم کی تعلیم کو اپنایا اس کے برگ و بار اور ثمرات تو یہی ہو سکتے تھے۔ جرائم۔ ہڑتالیں ۔ بے حیائی۔ گھیراؤ۔ دھونس اور دھاندلی۔ ہماری موجودہ تعلیم نے ہمیں یہی کچھ عطا کیا ہے اور ہم نے اسے لعلِ گراں مایہ سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ اپی تہذیب بھول گئے دوسروں کی نقالی کو فن کمال تک پہنچایا۔ اپنے جواہر پاروں کو خزف ریزے سمجھ کر چھوڑ دیا اور بے قیمت پتھروں کو در شہوار سمجھا۔ پاکستان میں تعلیم، ضابطۂ تعلیم، اصول تعلیم، طریق تعلیم، اصل تعلیم اور حصولِ تعلیم کے ساتھ جو جو مظالم روا رکھے گئے وہ ایک داستانِ خونچکاں بھی ہے اور افسانۂ دراز بھی۔ افسوس کہ ہمارے ملک کی زمام کار ان لوگوں کے ہاتھ آئی جنہوں نے انگریزی اور انگریزیت کے سوا کچھ نہ پڑھا نہ کچ جانا۔ انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ پہلے ہی نظامِ تعلیم بلکہ اس سے بدتر نصاب کو بہ جبر ملک میں جاری رکھیں ۔ یہاں تک سازش کی گئی کہ علم کو صرف اعلیٰ ملازمین اور امرا و وزرا کے بچوں تک محدود کر دیا جائے اور غربا کے لئے حلم کے دروازے چند در چند مشکلات و قیود پیدا کر کے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے
Flag Counter