انسانی معراج پا نہ سکیں ۔ بلکہ صفحۂ ہتی سے ان کا نام و نشاں تک مٹا دیا گیا۔ لیکن اس حقیقت کے اظہار سے قلب و جگر شق ہوئے جات ہیں کہ آج وطن عزیز کو نقشۂ عالم پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے نام سے ابھرے پورے تیئیس ۲۳ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس ربع صدی میں قوم اس سے زیادہ جاہل ہے جبکہ ابھی غلام تھی اور وہی تعلیم رائج ہے جو انگریز اپنے ذہنی غلام اور پست ہمت کلرک پیدا کرنے کے لئے نافذ کر گیا تھا۔ میں کہتا ہوں جاہل اور ان پڑھ ہونا بھی بعض ناگزیر حالات میں گوارا ہو سکتا ہے لیکن گندہ، کفرساز اور اسلام دشمن علم کبھی گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کہ ہم مدت سے اسی زہر ہلاہل کو پی رہے ہیں ۔ ؎ آنچہ ماکرویم باخود ہیچ نابینا نہ کرد آنے والی نسل اور تاریخ کا طالب علم ان بد قماش، اسلام دشمن، ملت کش اور قاتلانِ امت مسلمہ اور دشمنانِ ملت پاکستانیہ کو کبھی معاف نہیں کر سکتا۔ جنہوں نے ہماری قیادت، ہماری سربراہی اور رہبری و رہنمائی کے پردے میں رہزنی کے فرائض سرانجام دیئے۔ وزارتوں کے لئے محلاتی سازشوں اور ذلیل جوڑ توڑ میں لگے رہے اور پاکستان کے بارہ کروڑ مسلمانوں اور ملک و ملت کی فلاح و اصلاح کو قطعاً فراموش کر دیا اور ہمیں ان تینوں عظمتوں سے محروم رکھا جو قوموں کی سربلندی کے لئے ریڑھ کی ہڈی ہیں : 1)علم 2)دستور و آئین 3)قومی زبان ہم آج آزادی کی ربع صدی کے بعد انگریز کے پہلے سے زیادہ ذہنی غلام ہیں ۔ پہلے سے زیادہ دین سے واقف۔ قرآن سے نفور، خدا و رسول کی عظمت کے پہلے سے زیادہ ناشناس اور نابلد ہیں ۔ اسلامی بلکہ انسانی اخلاق رخصت ہو گیا ہے۔ ملک کا معاشرہ ذلیل جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمدردی، اخوت، فرض شناسی اور خدمت خلق کا جذبہ سرد پڑ چکا ہے۔ معاشرہ کا ہر فرد دولت کا پجاری، مادیات کا طالب، آسائش کا خوگر، عیش و عشرت کا دلدادہ اور دوسروں کا حق مارنے اور حق کھانے کا عادی ہو چکا ہے۔ ہماری نوجوان پود |