وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ ﴿١١﴾ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ[1] اور میخوں والے فرعون کے ساتھ جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی سو ان میں بہت فساد کیا۔ چنانچہ اسی فساد کو مٹانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام و مصلحین کرام کو بھیجا، جو وقتاً فوقتاً اس فساد کو دور کرنے کے لئے اصلاحی کوشش کرتے رہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ ہم اسلامی نقطہ نظر سے اصلاح معاشرہ کا تصور پیش کریں اور یہ جائزہ لیں کہ: ٭ اسلامی لحاظ سے معاشرے کے اندر بگاڑ کیسے شروع ہوتا ہے؟ ٭ اس کے اسباب کیا ہوتے ہیں ؟ ٭ نتائج کیا ہو سکتے ہیں ؟ ٭ اصلاح کیسے ہو سکتی ہے؟ ٭ اصلاح کا طریقِ کار کیا ہو سکتا ہے؟ معاشرہ کے بگاڑ اور بناؤ کے ذکر سے قبل دو باتیں بیان کرنی بہت ضروری معلوم ہوتی ہیں : ٭ فردِ معاشرہ کا خالق کائنات سے کیا تعلق ہے؟ ٭ فرد کا دوسرے افرادِ معاشرہ کے ساتھ اور معاشرے کی اجتماعی حیثیت سے کیا ربط ہے؟ کسی معاشرے کا تجزیہ کرنے کے لئے ان دو اصولوں کو پیش نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ ان دو اصولوں کی بناء پر انسان کی انفرادی سیرت کا تعین اور اجتماعی کردار کا مفہوم واضح ہو گا۔ ہم سب سے پہلے دیکھیں گے کہ افراد کے ذہنوں میں خدا کا تصور ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو ناقص ہے یا صحیح؟ اس کے بعد ہی فیصلہ ہو گا کہ افراد کا باہمی تعلق، ہمدردی، ایثار اور محبت و عفو کا ہے یا کینہ و عناد، انتقام اور سخت گیری کا؟ یہ وہ تجزیہ ہے جس سے معاشرے کے امراض کا پتہ چلتا ہے۔ پھر اس میں ایک اور بات |