۱۔ وہ عیش و عشرت کی زندگی سے اجتناب کر گا۔ ۲۔ ریشمی لباس نہیں پہنے گا۔ ۳۔ چھنا ہوا آٹا نہیں کھائے گا۔ ۴۔ اور اپنے دروازے پر دربان نہیں بٹھائے گا۔ ۵۔ اور حاجت مندوں کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ امام بلازری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ:۔ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر حاکم کے مال اور اسباب کی فہرست تیار کرواتے تھے اور جب کسی عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی اضافے کی خبر ان کو ملتی تو جائزہ لے کر آدھا مال بیت المال میں داخل کرا دیتے تھے۔ ایک دفعہ بہت سے عمال اس بلا میں مبتلا ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کی املاک کا جائزہ لے کر سب کے مال کا آدھا آدھا حصہ بیت المال میں جمع کرا دیا۔ حج کے زمانے میں اعلانِ عام ہوتا تھا کہ جس عامل سے کسی کو شکایت ہو وہ فوراً خلیفہ کے پاس چلا آئے۔ لوگ چھوٹی چھوٹی شکایتیں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لاتے اور وہ پوری مستعدی کے ساتھ ان کا تدارک فرماتے۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے بیٹے نے ایک مصری کو ناجائز پیٹا اور کہا کہ ’’ہم اکابر کی اولاد ہیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس مصری نے شکایت کی تو فوراً عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کے بیٹے کو بلوایا اور عمرو رضی اللہ عنہ بن العاص کی موجودگی میں ان کے بیٹے کو درے لگوائے۔‘‘ حضرت سعد بن ابی وقاص نے کوفہ میں ایک گھر تعمیر کیا۔ جس میں ڈیوڑھی بھی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ حاجت مندوں کو حضرت سعد بن ابی وقاص سے ملنے میں دقت ہو گی۔ محمد بن سلمہ کو حکم دیا کہ جا کر ڈیوڑھی میں آگ لگا دیں ۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص پاس کھڑے خاموشی سے اپنے مکان کی ڈیوڑھی جلنے کا تماشا دیکھتے رہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مزاج اگرچہ دھیما اور حلم ان کے ضمیر میں گندھا ہوا تھا لیکن ان کے مزاج کا دھیما پن قومی اور ملی معاملات میں انہیں احتساب سے باز نہیں رکھتا تھا۔ سعد بن ابی وقاص نے بیت المال سے ایک |