خود مقرر نہیں کیا بلکہ انتخاب کی آپس میں تیز تیز بحثیں ہوئیں اور آخر سب نے متفقہ طور پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ طبقات ابن سعد میں ہے:۔ ’’ان ابا بکر الصدیق کان اذا نزل بہ امر یرید فیہ مشاورۃ اھل الرای واھل الفقہ‘‘ (کہ حضرت ابو بکر صدیق کو جب کوئی معاملہ در پیش ہوتا تو صاحب الرائے اور سمجھ بوجھ والے صحاہ سے مشورہ لیتے تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو باضابطہ مجلس شوریٰ قائم کی اور تمام قومی مسائل اس مجلس کے سامنے رکھتے تھے اور کثرتِ رائے سے تمام امور کا فیصلہ کرتے تھے۔ مجلس شوریٰ کے علاوہ ایک مجلس عام بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قائم کی جس میں مہاجرین و انصار کے علاوہ تمام سردارانِ قبائل شریک ہوتے تھے۔ یہ مجلس نہایت اہم امور کے پیش آنے پر طلب کی جاتی تھی ورنہ روزمرہ کے کاروبار میں مجلس شوریٰ کا ہی فیصلہ کافی سمجھا جاتا تھا۔ مجلس شوریٰ کے انعقاد کا عام طریقہ یہ تھا کہ مناوی ’’الصلوۃ جامعۃ‘‘ کا اعلان کرتا تھا۔ لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے تھے پھر دو رکعت نماز پڑھ کر خلیفہ بحث طلب بات پر لوگوں کو خطاب کرتا تھا۔ اس کے بعد ہر ایک کی رائے دریافت کی جاتی تھی۔ خلافتِ راشدہ کی یہ ایک بھری ہوئی خصوصیت کہ محض اہمیت اور استحقاق کی بنا پر ہی عمال کو عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ: ’’میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو کوئی مسلمانوں کا حاکم مقرر ہو اور وہ کسی کو اہمیت و استحقاق کے بغیر کسی عہد پر فائز کرے اس پر خدا کی لعنت ہو۔ خدا اس کا کوئی عذر اور فدیہ قبول نہ کرے گا۔‘‘ خلفائے راشدین حکام کی کڑی نگرانی کرتے تھے۔ ان کا سخت احتساب ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے ہر عامل سے عہد لیتے تھے کہ: |